لانگ مارچ کی طویل تاریخ، بلوچ و سندھیوں کی کٹھن مسافت
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فرانس میں 17جولائی1789 کو ایک تاریخی مارچ ہوا تھا، جو انقلاب فرانس سے کچھ پہلے برپا ہوا تھا،اس مارچ سے اس دس سالہ بغاوت نے جنم لیا جس نے بلاخر فرانس میں بادشاہت کو ختم کر دیا۔اس مارچ کے دن فرانسیسی مزاحمت کاروں نے بسٹائل کے گورنر کا سر قلم کیا اور جیل پر قبضہ کر لیا جہاں بہت بڑی تعداد میں سیاسی قیدی بند تھے، پھر واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو بادشاہت کے خاتمے پر منتج ہوا.
دنیا کی تاریخ کا ایک اور مشہور مارچ موہن داس کرم چند گاندھی نے کیا تھا، یہ مارچ برطانوی راج میں نمک بنانے پر پابندی اور ٹیکسوں کے خلاف تھی اس احتجاجی مارچ میں موہن داس کرم چند گاندھی اور ان کے پیروکار مسلسل تئیس دن تک چلتے رہے وہ دو سو چالیس میل کا سفر طے کر کہ ساحل سمندر پر پہنچے اور نمک بنایا، کیونکہ کے برطانوی قانون کے تحت خود نمک بنانا غیر قانونی تھا جواب میں انگریزوں نے گاندھی سمیت ساٹھ ہزار افراد کوگرفتار کر لیا اس مارچ کی وجہ سے دنیا کی توجہ ہندوستان کی طرف مبذول ہوئی اور دنیا کے کئی ملکوں اور رائے عامہ کے ایک بڑے حصے نے واضح طور ہندوستانیوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا.
اس کے علاوہ یوکرین میں سال 2004 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو لیکر ہزاروں لاکھوں لوگوں نے ملک کے دارلحکومت کیو میں احتجاجی مارچ کیا یہ لوگ سخت بارش اور برف میں بارہ دن تک سڑکوں پر رہے بالاآخر ارباب اختیار نے ان کا مطالبہ مان لیا ملک میں دوبارہ انتخابات میں یہ لوگ جیت گئے.
تاریخ کی عظیم ترین مارچوں میں سے ایک مارچ وہ بھی تھا جو چیئرمین ماؤ نے کیا تھا یہ مارچ دوسرے احتجاجی مارچوں سے اس لیے مختلف سمجھی جاتی ہے کہ اس میں چین کی سرخ فوج نے حصہ لیا تھا یہ در اصل ایک نہیں بلکہ کئی مارچوں کا مجموعہ تھا جس کا زیادہ حصہ عسکری تھا اس مارچ میں چئیرمین ماؤ کی قیادت میں تین سو ستّر دنوں کے اندر نو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا گیا تھا، یہ مارچ ماؤ زے تنگ کےعروج اور چینی انقلاب کا باعث بنا تھا۔
پاکستانی زیرقبضہ بلوچستان میں ریاست کے ہاتھوں جبر و بربریت کا سلسلہ نیا نہیں بلوچ قوم گزشتہ بھتّر سالوں سے اس استحصال کے خلاف برسرپیکار ہیں مختلف طریقوں سے احتجاج اور جمہوری طرزِ طریقوں سے کوششیں کی گئیں، دو ہزار کی دہائی میں جب پاکستان پر مشرف رجیم آئی تو اس وقت بلوچستان پر آسیب کے سائے مزید گہرے ہوگئے تھے جس کا انجام بلوچستان میں سیاسی کارکنان کو لاپتا کرنا اور بعد ان کی مسخ شدہ لاش ویرانوں پھینکنا تھا یہی وہ اسباب تھیں جن سے بلوچستان میں ماما قدیر اور نصراللہ کی سربراہی میں “بلوچ مسنگ پرسنز “کے نام پر ایک تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد جبری لاپتہ بلوچوں کے لئے آواز اٹھانا تھا۔
جمہوری طرز کے تمام حربوں کو استعمال کرنے کے سیاسی تاریخ کی طویل ترین لانگ مارچ کا ابتداء بلوچ قوم نے کیا تھا جو 2000 کلومیٹر تک محیط تھی، بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پیدل لانگ مارچ کا آغاز 27 اکتوبر کو کوئٹہ سے ہوا جس کا منزل 700 کلومیٹر دور کراچی شہر تھا پھر اس کے بعد کراچی تا اسلام آباد دو ہزار کلومیٹر طویل مارچ کیا گیا ،یاد رہے اُس مارچ کی قیادت بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے وائس چیئرمین قدیر بلوچ کر رہے تھے.
بلوچستان کی تاریخ میں یہ پیدل لانگ مارچ اپنی نوعیت کا پہلا احتجاج تھا اور اس میں خواتین اور بچے بھی شریک تھے جن میں سب کے عزیز و اقارب میں سے کوئی نہ کوئی لاپتہ فرد شامل تھا. اُس مارچ میں شریک فرزانہ مجید کے بھائی ذاکر مجید بلوچ گذشتہ گیارہ سالوں سے زیادہ عرصے سے لاپتہ ہیں فرزانہ مجید سمیت تمام لواحقین کا مطالبہ سادہ سا تھا کہ ’اگر ان کے پیاروں کا کوئی قصور ہے تو انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے کیونکہ ایک ذمہ دار ریاست اپنے شہریوں سے ایسا سلوک نہیں کرتی جس طرح پاکستانی خفیہ ایجنسیاں اپنے شہریوں کے ساتھ کررہا ہے۔گیارہ سالوں سے لاپتا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹیاں سمّی بلوچ بھی اس مارچ کا حصہ تھا مطالبہ صرف ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو. لیکن پاکستان جیسے شاؤنسٹ ریاست کی طرف سے یقیناََ جمہوری طرزِ احتجاج کی وقعت نہیں اسی لئے کی گئی تمام کوششیں بارآور ثابت نہ ہو پائیں، حالانکہ بین الاقوامی دنیا میں بھی بلوچ جلاوطن سیاسی کارکنان نے جرمنی میں 700 کلومیٹر تک کا پیدل لانگ مارچ کیا تھا جو جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف سے ہوتا ہوا اکیس دنوں تک جرمنی کے پایہ تخت برلن پہنچ گیا، لیکن پاکستان پر عالمی دنیا نے وہ دباؤ نہیں ڈالا جس کی توقع کی جارہی تھی.
کہتے ہیں کہ کوششیں بیکار نہیں جاتیں اور امیدوں کے سہارے چلنا ہی اصل سیاسی استحکام ہے یہی وہ وجہ ہیں جن کی بنیاد پر ایک مرتبہ پھر لاپتہ سندھی اور بلوچوں کے لئے سندھ سباء کی قیادت میں کراچی تا راولپنڈی جی ایچ کیو تک ایک طویل لانگ مارچ کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس کی قیادت سندھ سباء کے سربراہ انعام عباسی اور بلوچ ہیومن رائٹس اکٹیوسٹ بانک حانی گُل کررہی ہیں۔
اس مارچ میں سندھ سے لاپتہ کئے گئے بہت سے کارکنان کے لواحقین بھی شامل ہیں جس میں نمایاں کراچی سے دو مرتبہ لاپتا ہونے والا نوجوان عاقب چانڈیو کی بوڑھی ماں اور ان کی بہن سوشل اکٹیوسٹ شازیہ چانڈیو بھی شامل ہیں.
یہ وہ سہارے ہیں جو اس امید پہ جانبِ منزل محوِ سفر ہیں کہ کل جو ہمارا یہ احتجاج یہ شور و غوغا شاید بہروں اور گونگوں کے اس دیش میں بارآور ثابت ہو، مہذب دنیا کے طریقہ واردات، سیاسی و جمہوری طرزِ احتجاج کو اپنا کر سندھی اور بلوچ لاپتا افراد کے لواحقین یہ ثابت کررہے ہیں کہ ہم میں وہ سکت ہے جس سے دنیا کو ایک نہ ایک دن ہماری ان کوششوں کو اہمیت دینی ہوگی اور ہماری یہی کوششیں ریاست پاکستان پر ایک ایسا دباؤ ثابت ہونگے جس کے بوجھ کو شاید پاکستان برداشت نہ کرسکے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں