عورتیں کام کرنا چاہتی ہیں
تحریر: زہرہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بدقسمتی سے آج کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مردانہ حاکمیت کی بھی تاریخ ہے، جس کے صفحات سے عورت کے نقوش کھرچ دیے گئے ہیں۔غلاموں کی بغاوتوں سے لے کر کسان بغاوتوں تک انسانی تاریخ کی بڑی بڑی رزم گاہوں میں عورت مصروفِ جہد رہی جس کی بجا طور پر نشان دہی کرتے ہوئے کامریڈ اسٹالین نے کہا تھا کہ’’تاریخ میں مظلوموں کی کوئی بھی بڑی تحریک ایسی نہیں رہی جس میں محنت کش عورتوں نے حصہ نہ لیا ہو،محنت کش عورتیں جو تمام مظلوموں میں سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور ہیں ،آزادی کے قافلے سے نہ کبھی علیحدہ رہے اور نہ علیحدہ رہ سکتی ہیں۔‘‘لیکن یہ اور بات ہے کہ فاتحین کے حضور کورنش بجا لانے والے درباری مورخین کی روشنائی ان کا نام درج کرنے سے انکاری رہی.
انسانی تاریخ میں ذاتی ملکیت کی اولین شکل عورت تھی اور کرۂ ارض پرقائم ہونے والا پہلا طبقاتی نظام جو آقا اور غلام کے رشتے پر مبنی تھا اس میں مرد اور عورت کا سماجی رشتہ آقا اور غلام کا تھا، اگر ہم اپنے خطے پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی اس رواں جدوجہد میں سرگرم کئی ایک انقلابی عورتوں کے نام نظر آتے ہیں جنھوں نے اس راہ میں مشکلات کا سامنا کیا اور قربانیاں دیں. لیکن بدقسمتی سے آج بھی کچھ نادیده قوتیں ہم جیسے زالبولوں کو آگے آنے نہیں دیتیں ہم بھی دنیا کے باقی معاشروں کی طرح اپنے قوم اپنی سرزمین کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں.
یہ رویہ کچھ بھی پُرانہ نہیں کہ ہمارے معاشرے کی چند فرسودہ سوچ رکھنے والے مرد حضرات ہمیشہ چاہتے ہیں کہ عورت گھر کی دہلیز تک ہی رہے اس سے ان کی انسانیت چھین لی جاتی ہے، وہ اس طرح کہ اگر کوئی بہن سوشل میڈیا پر ویڈیو بنا رہی ہے اور بلوچستان کی آواز بلند کر رہی ہے اور اپنی بہنوں کا ساتھ دے رہی ہے تو اس میں برا ہی کیا ہے؟ اگر وہ پہلے نہیں تھی اب وہ آگئے ہیں تو اس میں ہم سب کو کیا مسئلہ ہے؟ اور ایک بات وہ ویڈیو کے اندر کسی کو خراب تو نہیں بول رہی ہے، وہ تو صرف بلوچستان کے بارے میں بتا رہی ہے، میں نے اکثر ان چیزوں پر غور کیا ہے اگر ایک بہن پریس کلب جاتی ہے کچھ لوگ ان کی تصویروں کو ان کی فیملی والوں کو بھیج دیتی ہیں کہ یہ دیکھو اپ کی بیٹی ہے باہر گھومتی ہے کیا کیا کرتی ہے مجھے سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آپ لوگ ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اور آپ لوگوں کو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہوئے بہت سکون ملتی ہے ؟ آپ لوگوں کو نہیں پتا کہ وہ کیسے گھر سے نکلتی ہیں کیسے جاتی ہیں وہ اپنی ماں اور بہنوں کی درد تکلیف کو برداشت نہیں کرتی ہیں اس لیے وہ ان کے پاس جاتی ہیں کہ وہ بلوچ مسنگ پرسنز کے فیملی کی درد کو تو دور نہیں کرسکتی ہیں اور نہ ان کے بیٹوں کو بازیاب کروا سکتی ہیں لیکن وہ اپنا قدم روک نہیں سکتی ہے ان کے لئے لیکن کیا کریں یہ تو ہماری قوم کی فطرت ہے اچھا کام کرنا ہماری قوم کو برداشت نہیں ہوتی ہے۔ ان کے اپنے منہ پر تالا لگا ہوا ہے اور پاؤں میں زنجیر باندھے ہوئے ہیں ڈر اور خوف ان کے رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے، لیکن پھر بھی اگر کوئی اور اس جدوجہد کا حصہ بننا چاہتی ہے تو ہمارے نادان قوم کے کچھ لوگوں کو کیوں مسئلہ ہے؟
معاشرہ تب ترقی کرسکتا ہے جب مرد اور عورت میں تفریق باقی نہ رہے. زندگی کے ہر شعبے میں باہمی ساتھ اور ہمراہی بننا ہی زندگی کے ہر مشکلات کو آسان بنا دیتا ہے.
ابھی تو ہمارے آنگنوں میں مفلسی پاؤں پسارے لیٹی ہے اور ہماری گلیوں میں سامراج کا سپاہی بندوق تانے کھڑا ہے، روز مائیں چیخ رہی ہیں، اپنے پیاروں کی تلاش میں جب ہم ان کے سہارے نہ بنیں گے تو کون ان کا آنسوں پونچھے گا؟ ہمیں سانس لینے دیں، ہمیں ایک دوسرے کا دکھ درد تکلیف محسوس کرنے دیں خدا راہ ہم بھی اس سماج کے باسی ہیں ہم بھی انسان ہیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں