ظلم کے ضابطے – غلام رسول آزاد

580

ظلم کے ضابطے

تحریر: غلام رسول آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

یوں تو غلامی کی تاریخ معلوم انسانی تاریخ کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے۔ ان کو اہرام مصر سے لے کر یونانی تہذیب اور یونانی تہذیب سے پھر سرمایہ دار سماج میں اپنا خون دینا پڑا۔ مصر کی غلامی ہو یا اکیسویں صدی میں بلوچستان کی غلامی ہو یہ قربانیاں آج بھی دنیا میں جاری ہیں۔

تعلیم کی غلامی سے آزادی کی جنگ ہو، زندہ رہنے کی جدوجہد یا زمین کی جنگ ہی کیوں نہ ہو۔ برسوں برس بیت گئے اور یہ کارواں اج بھی جاری ہے۔ اب کے برس بھی بہار نہ آسکے، ہم اپنی منزل کی تلاش میں کہاں کہاں چلے جارہے ہیں۔ اس حد تک کہ ہم قلم کی نوک سے بندوق کی نوک تک اور بندوق کی نوک سے قلم تک مسلسل اس سفر کو جاری کیے ہوئے ہیں۔ یہ سفر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ سچائی کی منزل کا سفر حق و انصاف برابری کے حصول تک جاری رہے گی۔ آج کے نفسا نفسی کے معاشرے کو بدل کر اس کی جگہ ایک ترقی یافتہ اور خوبصورت انسانی سماج کی تشکیل کا یہ کارواں اپنے منزل مقصود کے لیے روز بہ روز حوصلے اور عزم کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ یہ بلوچ کا منزل ہے اس منزل کے لیے بلوچ شہیدوں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے۔ اس مقصد کے لیے آج بھی بلوچ عوام بڑی دیدہ دلیری سے جدوجہد کررہی ہے۔ یہ مزاحمت ایک ردعمل ہے۔ اس عمل کا کہ جب اداروں نے فرائض کے بجائے عوام کی لوٹ مار پر توجہ مرکوز کی تو عوام نے اس غیرانسانی عمل کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا۔

جب ادارے اپنے اصل کاموں کو چھوڑ کر غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک پر آتر آتے ہیں تو مزاحمت کرنا پڑتا ہے۔ انقلاب آتی ہے تو ہر خوف کی لہروں کو ختم کردیتی ہے۔ انقلاب مظلوم عوام کی آخری منزل ہے۔

انقلاب ہی کے ذریعے اس غلیظ اور بنیاد پرست معاشرے کو ترقی پسند معاشرہ بنایاجا سکتا ہے۔ انقلاب اور غلامی کے خلاف جدوجہد کرنا ہر مظلوم اور محکوم عوام کا فرض ہے۔ اس فرض کو تمام غلام قوم پورا کرکے غلامی کے زنجیروں کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیں۔ ظلم کی ہر زنجیر کو توڑ کر خوشحالی اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

اپنی حق کی تلاش میں زندگی کی ہر بلند مقصد کا درد، اذیت، غم وغصے کی آس میں خود کو جلتے جلاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف روانہ ہیں۔

کبھی قلم کی سیاہی تو کبھی خون کی لہریں مگر یہ کاروان علم کی روشن مثال کو ہاتھوں میں رکھ کر اپنی اندھیری راہوں کو روشن رکھی ہوئی ہیں۔

ظلم اس حد تک ہم پر اثر مند ہوگئی ہے۔ کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی ماں باپ کے آنکھوں کی نمائش بن نہیں سکتے، اس ڈر و خوف سے کہ شاید یہ زندگی کی آخری گھڑی ہو ۔ کب، کیوں اور کون مار دے یا گم نام جگہ پر روز زندگی کی آخری سانسوں کو گن کر اپنی موت کو گلے لگا کر روز مرنے کی تمنا لیے درد بھری سسکیوں کے ساتھ گل زمین کے بانہوں میں دفن ہوجاؤں۔ یہ بے یقینی ہر بلوچ نوجوان کے ذہن میں بیٹھا ہے۔ ہر بلوچ ورنا روز اسی عزاب سے گزرتا ہے کہ کب اس کی باری آئے گی ۔ حکومت اور حکمران وقت کو اپنے اس غیرانسانی پالیسوں کو بدلنا ہوگا۔ لوگوں کی بات سننا ہوگا۔ طلبا اور سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کی غیرانسانی اور غیرآئینی پالیسی کو ترک کرنے ضرورت ہے۔ اب بلوچ عوام ظلم کے اس ضابطے کو مزید براشت نہیں کرے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں