شامی حالات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق یہ اسرائیلی فضائی حملے تھے، جن کے ذریعے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کو ابوکمال نامی ٹاؤن کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ یہ علاقہ صوبہ دیر الزور میں واقع ہے۔
اس تنظیم نے اپنے ذرائع کے حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر جنگجوؤں میں وہ پاکستانی شہری شامل ہیں، جو صدر اسد کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔
شام کا سرکاری میڈیا اس طرح کے حملوں کو سرے سے رپورٹ ہی نہیں کرتا جبکہ اسرائیل بھی ایسے حملوں کے بعد خاموش ہی رہتا ہے۔ اسرائیل ماضی میں بھی درجنوں مرتبہ شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔
آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہفتے کے بعد سے اسرائیل نے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف دو دیگر حملے بھی کیے ہیں۔
آبزویٹری فار ہیومن رائٹس لندن میں کام کرتی ہے لیکن شامی خانہ جنگی کے آغاز سے اس نے وہاں معلومات جمع کرنے کا وسیع نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔
اسرائیل کی طرف سے تازہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں، جب اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد ایردن نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ شام سے ایرانی فورسز کو بے دخل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران شام میں نہ صرف اپنے فوجی مشیر بھیج چکا ہے بلکہ افغانستان اور پاکستان سے سینکڑوں جنگجو بھی شام بھیجے گئے ہیں، جو اسد کی فورسز کے ساتھ مل کر لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں ‘مزارات کے محافظ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نام شام میں شیعوں کے مقدس مقامات کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔
شام میں نہ صرف ایرانی بلکہ پاکستانی، لبنانی حزب اللہ، عراقی اور افغان ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے عسکریت پسند لڑ رہے ہیں۔ ان تمام کی تعیناتی کا مقصد اسد حکومت کی حفاظت کرنا ہے۔ دوسری جانب ایران حکومت ایسے کسی بھی دعوے کو مسترد کرتی ہے کہ ان کے فوجی شام کی لڑائی میں شریک ہیں۔