سات سال سے بھائی کے واپسی کے منتظر ہیں – فرزانہ رودینی

172

سات سال سے جبری گمشدگی کے شکار سیف اللہ رودینی کی ہمشیرہ فرزانہ رودینی اور دیگر نے کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں بھائی کے بازیابی کے حوالے سے پریس کانفرنس کی۔ جہاں انہوں نے سیف اللہ رودینی کے گمشدگی کی تفصیلات بتائی۔

فرزانہ رودینی کا کہنا تھا کہ ایسا سماج جہاں انصاف فراہمی کے لیے متعین دروازے بند کردیے گئے ہوں وہاں انصاف تک رسائی کی ساری امیدیں محض صحافت سے جڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے کونے کونے سے روزانہ انصاف کے طلبگار کسی وزیر، جج یا پولیس سرابراہ کے بجائے کوئٹہ پریس کلب پہنچتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان کا ہر تیسرا گھر جبری گمشدگی کے سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ اب ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جبری گمشدگی جیسے اس غیر انسانی تسلسل کا ایک شکار سوراب کا رہائشی سیف اللہ رودینی بھی ہے۔

فرزانہ رودینی نے اپنے بھائی کے حوالے سے مزید کہا کہ سیف اللہ رودینی پولیس ملازم تھا جبکہ وہ خضدار میں ڈیوٹی پر تھا، وہ چھٹی لیکر اپنے خاندان سے ملنے سوراب آئے تھے، چھٹی ختم ہوتے ہی وہ واپس خضدار جارہا تھا کہ راستے میں پہلے سے کھڑی سفید رنگ کی گاڑی جس پر نمبر پلیٹ نہیں تھا اور سیاہ رنگ کے شیشے تھے اور اس میں چار آدمی سوار تھے، ان میں سے دو سادہ وردی میں نیچے اترے اور سیف اللہ رودینی کو دبوچ لیا اور گاڑی میں پھینک دیا۔

فرزانہ نے بتایا کہ مذکورہ واقعہ 22 نومبر 2013 کو ہوا جبکہ سیف اللہ کے پاس سرکاری رائفل بھی تھا۔ یہ سب ہمیں عینی شاہدین نے بتایا کیونکہ واقعہ خضدار کراچی ہائی وے پر ہوا جہاں ہر وقت ٹریفک کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کے واقعات میں پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکار ملوث ہوتے ہیں۔ جب ہم واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے گئے تو تحصیلدار سوراب نے ایف آئی آر درج کرنے صاف انکار کیا۔

فرزانہ کا کہنا تھا کہ سیف اللہ رودینی کے گمشدگی کو 22 نومبر کو 7 سال مکمل ہوئے۔ جس کیلئے ہم متواتر احتجاج کررہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ انتہائی سادہ اور ملکی آئین و قانون کے مطابق ہے کہ فورسز غیر آئینی طریقے سے قید سیف اللہ کو قانون کے مطابق عدالت میں پیش کرے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنے ہی عدالتوں اور آئین پر بھروسہ نہیں ہے جس کے باعث وہ اپنی الگ ہی عدالت اور حکمرانی قائم کرچکے ہیں۔

لواحقین کا مزید کہنا تھا کہ سیف اللہ رودینی کے جبری گمشدگی کی تفصیلات ہم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس جمع کرچکے ہیں جبکہ ملکی عدالتوں میں بھی ان کے حوالے سے کاغدات جمع ہیں لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ ملکی عدالتیں برائے نام لاپتہ افراد کے کیسز کے حوالے سے کمیشن بنائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے پریس کانفرنس کے توسط سے مطالبہ کیا کہ سیف اللہ رودینی سمیت تمام لاپتہ افراد کو ان کے آئینی، قانونی اور انسانی حقوق دیئے جائے۔ جب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا ہم لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ اپنا پرامن احتجاج جاری رکھیں گے اور ملکی عدالتوں سے مایوسی کی صورت میں بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کرینگے۔