دانشوروں کا اغواء – شبیر بلوچ

614

دانشوروں کا اغواء

تحریر: شبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پرفیسرڈاکٹر لیاقت سنی بلوچ (پروفیسر براہوئی ڈیپارٹمنٹ بلوچستان یونیورسٹی) کا بلوچستان کے ان اسکالرز میں شمار ہوتا ہے۔جنہوں نے اپنے مادری زبان براہوئی میں (پی ایچ ڈی) عموماًاکیس سالہ تعلیم مکمل کی ہو۔

پروفیسر لیاقت سنی کا شمار بلوچستان کے ان شاعروں میں بھی ہوتا ہے۔ جنہوں نے اپنی ادب اور موجودہ حالت و وقت کی ضروریات کے مطابق اپنے مادر وطن سے درد کے احساس کو ہی زیادہ تر بیان کرنے کو ترجیح دی ہے اور اس درد کابیانیہ براہوئی زبان میں کچھ کتابوں پہ مشتمل بھی ہے۔

اب بات یہاں پہ آتی ہے گرفتاری یا اغواء نما گرفتاری کی وجہ کچھ باتیں روایتی انداز میں ہمارے سامنے آتے جاتے ہیں مگر اصل وجوہات کہاں پہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں یہ دیکھنا لازمی ہے۔

لازماً بلوچستان میں اس سے پہلے بھی سکول کالج یونیورسٹیز کے طالب علموں،اساتذہ اور دیگر پروفیشنل شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر،انجنیئر بالخصوص سیاسی انتقام کی خاطر سیاسی پارٹیوں کے ممبران اور رہنماوں کو بھی ایسی اغواء نما ماورائے عدالت گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں غائب بھی کردیئے گئے ہیں۔اور سینکڑوں ماورائے عدالت قتل کے کیسسز بھی ہیں۔مگر ڈر و خوف اور حقیقی سیاسی یقین دہانی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا کے سامنے یا عدالتی مراکز میں ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔

جنہوں نے اصلی چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو انکو بھی بہت سارے مشکلات پیش آئے ہیں۔

بلوچستان کے مختلف سرکاری اداروں کے ذمہ داراں کو بھی ڈیتھ سکواڈ ،شدت پسند ملاوں اور سیاسی مخالفیں کی وجہ سے بھی پریشانیاں اٹھانے پڑے ہیں اور کئی اساتذہ کو توماورائے عدالت کیس موقع پہ شہید کردیا گیا ہے۔ جن میں خضدار ڈگری کالج کے اکنامکس کے پروفیسر رزاق زہری بلوچ ،بلوچستان یونیورسٹی کے لیکچرر بابو عثمان عرف صباء دشتیاری بلوچ ،سراج بلوچ اور بھائی لیکچرار بی آر سی خضدار ودیگر شامل ہیں۔ جسکی نہ پاکستانی عدالت نہ کہ یہاں کے سیاسی پارٹیوں نے کبھی عدالتی حوالے سے حل کی ممکن تسلی بخش عملی کام کی ہے۔

عدالت نے اسلیئے نہیں کیا کہ انکے مطابق ڈیتھ اسکوائڈ و شدت پسند ملاوں کے خلاف ڈر اور خوف انتہائی زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملا اور عدالت پر سے عوام کا یقین ختم ہونے کی وجہ سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل بھی نہیں سکتا کیونکہ گواہوں کے گھروں سے انکے بیوی بچےاٹھانے اور انکو بھی وہی عبرت ناک سزا دینے کی خوف سے خاموش کیا گیا تھااور ہر وقت ایسے ہی کیا جاتا رہا ہے۔

بلوچستان میں اس وقت موجودپارلیمانی سیاسی پارٹیاں تو سچ حق و انسانی ہمدردی کے نظریوں و قوم پرستی کا نام استعمال کرنے کے علاوہ آج تک ایسا عملی موثر اقدام اٹھانے میں ناکام رہے ہیں جن سے وہاں کے عوام میں حقیقی سیاسی شعور پیدا ہو۔اور عوام ماورائے عدالت کیسز کے خلاف اٹ سکیں۔

بی ایس او ایک طلباء سیاسی تنظیم ہے جسکی مدد سے کچھ نہ کچھ فائدہ مل سکتا تھا اس کو بھی ایک دو دھڑوں کے علاوہ سرداروں نوابوں اور معتبروں کے نائبی کے علاوہ خاصا کامیابی نہیں ملی ہے۔

اور انہی سیاسی پارٹیوں نے ہی بی ایس او کے ممبر سے لیکر چیئرمین کی منتخبی کو بھی سرداری دستار بندی کی طرح یا سردار نواب کے ہاتھوں میں تھما دی ہے یا تو کسی نہ کسی طریقے سے انکووظیفہ خوری سے اپنے ماتحتی ورکر بنانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملاہے۔

کچھ سیاسی پارٹیوں نے اپنا بی پارٹ ہی قراد دیکر بی ایس او کی عظیم تر نظریہ کو بھی اپنے لالچی نظریوں کے پابند بناکر سیاسی پارٹیوں کے جلسہ جلوس منعقد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے۔یہ ایک اور لمبی بحث ہے کس لیئے نوجوان انکے لالچ سے متاثر ہوتے ہیں اور وجوہات کیا ہیں۔

باقی قوم پرست تنظیمیں و بی ایس او کا ایک مخصوص مگر سیاسی حوالے سے کلیئر دھڑا اپنی کوششیں تو کرتے رہے ہیں۔

مگر وہی موجودہ بلوچ قوم پرستی کے نام اور سوشلزم کے نام پہ موجود سیاسی پارٹیوں نے انکے قدم تک جمنے نہ دی ویسے بھی انکے مطالبات ہی بہت سخت و واضح تھیں تو شروع سےہی انکا مکمل خاتمہ کرنے و کروانے میں سرکار ،سردار میر معتبری کرنے والے سیاست دان اتنی مخالفت میں گئے کہ دن دہیاڑے انکے باپ رشتہ داروں کو اپنے قلعہ میں بلاکر دھمکیاں دینے لگے کہ اپنے بچوں کو اس بی ایس او سے دور رکھیں یا تو یہ علاقہ ہی چھوڑ کر چلے جائیں ۔

اور ظاہر ہے عوام کی نفسیات سے واقف مکار سیاست دان و میر معتبروں کو ایک بہت بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو اندر اندر سے منصوبہ بنالیتے کہ جو بی ایس او ہم سب کے لیئے درد سر بن جائے گااس بی ایس او کاخاتمہ ہوجائے یا دیگر طلباء تنظیموں کی طرح کسی نہ کسی پارلیمانی سیاسی پارٹی کے ماتحت ہوجائے تاکہ زندگی بلوچ سیاسی عملی تحریک کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہے۔

وہ بی ایس او جو حقیقی عملی سیاسی شناخت لانے میں کامیاب ہوا تو جھوٹی قوم پرستی و سوشلزم برابری کے نام پہ سیاست چمکانے والوں کی حقیقت دنیا کے سامنے آجائے گااور انکی پیروی کرنے والوں کی آنکھیں کھل گئے تو بہت ساری زلت کا شکار بھی ہونگے۔

ظاہر ہےماتحت سامراج سیاسی صورتحال ایسی رہی کہ انکو ضروریات وقت ایسے اقدام اٹھانے پڑے کہ وہ واپس اس مقام پہ آنہیں سکتے تھے انکے بھی سیاسی تجزیہ کار اپنی تجزیات تو کرتے ہیں مگر انکو جو وقت مناسب لگا کیا کرنے کی بہت سارےمثبت وجوہات بھی تھیں اور مثبت نتیجہ ملابھی ہے ۔ اب ہم اپنی سیاسی زمہ داریاں قبول کرکے حقیقی سیاسی زندگی کے بجائے صرف انکے پیٹھ پیچھے اپنے ناکامی کا ڈھنڈھورا بجانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرپارہے ہیں۔اسکے بھی بہت سارے وجوہات ہیں ایک الگ بحث ہے جس پہ بات کرنا بھی لازمی ہے۔

کیونکہ پارلیمنٹ و دیگر نعرہ بازی کے سیاست نے نام بنانے اور بڑے بڑے اجتماعی جلسوں کے علاوہ خاصا کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔اور بھی وجوہات تھیں جو حقیقی سیاست سے مکمل دوری کی جانب رواں دواں تھیں انکو بھی ایک مخصوص حق سچ و عملی سیاست بھی دکھاناتھا۔

اب بات یہاں پہ یہ آتا ہے کہ لیاقت سنی بھی ایک شاعر ادیب اور کتاب لکھاری تھے تو بظاہر اسے اغواءنماگرفتاری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو کئ دہائیوں سے چل رہا ہے۔

خدشہ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ لیاقت سنی کو واپس چھوڑ تو دینگے یا نہیں ان دونوں حالتوں میں فائدہ انکو ملے گا جنہوں نے اغواء کیا ہے۔

اگر چھوڑ بھی دیں تو خوف وہراس کی وجہ سے کوئ اپنی ادب تک بھی رسائی حاصل نہ کرسکے گا کہ کہیں لیاقت سنی کی طرح اغواء نہ ہوجاوں، اگر نہیں چھوڑا تو جو خوف ہے اس میں تیزی آسکتی ہے کمی نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں