حسیبہ انصاف چاہتی ہے – امین بلوچ

133

حسیبہ انصاف چاہتی ہے

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حسیبہ قمبرانی،سیما بلوچ ،سمی دین محمد، فاطمہ بلوچ ، نسرین کرد اور دیگر کئی بلوچ مائیں بہنیں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے کیمپ میں احتجاج کے لئے بیٹھی ہوئی ہیں۔وہ انصاف چاہتی ہیں، وہ اپنے بھائیوں کی واپسی چاہتی ہیں۔اپنے والد اور شوہر کی واپسی چاہتی ہیں۔لیکن جن اداروں نے انکے بھائیوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نا معلوم مقام پر منتقل کردیا ہے کیا وہ حسیبہ کے درد سے واقف ہیں؟ کیا ان کے سینے میں انسانوں کا دل ہے کہ وہ اس درد کو محسوس کرکے حسیبہ کو انصاف فراہم کرسکیں؟ جن اداروں نے سمی کے والد کو لاپتہ کیا ہے ، کیا وہ محسوس کرسکتے ہیں کہ والد کی جدائی کا درد کیا ہوتا ہے؟

درد کیا ہوتا ہے؟ تکلیف کسے کہتے ہیں؟بھائی کے انتظار میں،باپ کے انتظار میں کہ وہ کب گھر آئیں گے کتنا گراں ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب بھائی اور باپ اس قید میں ہو جہاں واپسی کا راستہ مصنوعی دل والے انسانوں کی مرضی و منشاء سے ہو۔

حسیبہ،سمی،فریدہ،نسرین،سیما،زرینہ اور کئی مائیں بہنیں آج احتجاج کررہی ہیں کہ کب انکے پیارے بازیاب ہو کر گھر آئینگے اور ان کا دہائیوں سے جاری انتظار دکھ اور تکلیف کا کرب ختم ہوسکے گا۔

لیکن اس سوال کا جواب شاید کوئی نہ دے سکے کہ حسیبہ اور دوسری ماؤں اور بہنوں کو انصاف کون فراہم کریگا۔پاکستانی سپریم کورٹ جس کے فیصلوں کی کنجی جی ایچ کیو کے جنرلوں کی جیب میں ہے یا بلوچستان کی نام نہاد حکومت جو ایک روڈ جی ایچ کیو کی اجازت کے بغیر تعمیر نہیں کرسکتی تو ان سے انصاف کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟

بلوچستان کی پارلیمانی پارٹیوں سے امید رکھنا فضول ہے کیونکہ نیشنل پارٹی ایک وقت ریاست کی بی ٹیم کا کردار ادا کررہی تھی اور آج اپنی وفاداری گنوانے میں مصروف عمل ہے، بی این پی جو بلوچستان میں ایٹمی دھماکے کے وقت ریاست کی ہمنوا بنی ہوئی تھی یا باپ پارٹی جو آج بھی ڈیتھ اسکواڈ کی پشت پناہی کررہی ہے۔

حسیبہ کس سے انصاف مانگے، پاکستان کے تمام اعلی اداروں کے دروازے اس نے کھٹکٹائے لیکن اسے کیا ملا صرف تاریخ اور جھوٹی امید اس کے علاوہ ان سے کسی چیز کی امید رکھنا بیوقوفی ہے۔

میرے خیال میں دنیا خاص کر پاکستان میں انصاف نام کی اصطلاح صرف مجبور اور بے کس لوگوں کو رام کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے،حقیقی انصاف کا کوئی وجود نہیں۔ وجود ہے صرف طاقت کا اور طاقت منظم اور یکجا ہونے سے ہی ملتی ہے۔

حسیبہ کو نہ ریاست جی ایچ کیو انصاف فراہم کرسکتی ہے اور نہ ہی بلوچستان حکومت،حسیبہ کو انصاف اس وقت ملے گا جب بلوچ قوم یکجا اور منظم ہو کر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے موثر آواز اٹھائیں گی اور حسیبہ اور دیگر بہنوں کے ساتھ مل کر ان کا بھرپور ساتھ دیں گی۔

بلوچ طالب علم، استاد،ڈاکٹرز ،سیاست دان اور مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ذاتی اختلاف کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں اور جو مائیں اور بہنیں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، انہیں انصاف فراہم کرنے کی جدوجہد کریں کیونکہ حسیبہ آپ کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے کہ کب اسکے اپنے اسکے قدم سے قدم ملا کر اسے انصاف فراہم کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں