جمہوری دعویداروں کاامتحان – صغیراحمد

198

جمہوری دعویداروں کاامتحان

تحریر: صغیراحمد

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس میں موجودہ سیاسی بحرانی کیفیت نے ہر اُس شخص کو صدمے سے دوچار کیا ہے، جس شخص نے بساک کے 11 سالہ سیاسی تاریخ کو قریب سے دیکھا ہے ،حالیہ ڈرامہ بازی پہ یقیناً ہر طالب علم کے ذہن میں بے شمار ابہام پیدا ہوئے ہیں، کئی ایسے خدشات جنم لے رہے ہیں جو کنفیوژن کی ماحول کا سبب بن رہے ہیں۔

میں بذات خود کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کی حیثیت سے یہاں کی طلباء سیاست کو قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ اگر غیرجانبداری سے کراچی یونیورسٹی میں مختلف تنظیموں کی سرگرمیوں کو پرکھا جائے تو یہاں بساک اوّل دن سے طلباء کے مسائل کے حل میں سرفہرست دکھائی دیتا رہا ہے،کراچی یونیورسٹی میں بساک کی تنظیمی سرگرمیوں کی وجہ سے یہاں کے طلباء میں سیاسی رجھان پیدا ہوئی ہے۔ بساک انہیں ایک شعوری سیاست کے جانب مائل کر چکی ہے، یہ تمام سرگرمیاں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکز کی نگرانی میں انجام پائے ہیں۔ بساک کے مرکز نے تقریبا بلوچستان کے تمام اضلاع میں کتاب کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا مگر آج اسی مرکز کے خلاف کچھ لوگ لفظوں کی تیر برسارہے ہیں۔

آج بساک کے خلاف جو دعوے عام ہیں، وہ کچھ اسطرح کے ہیں کہ بساک کی خود ساختہ مرکز نے تنظیم کو جمہوری اقدار سے محروم کیاہے اور تنظیم میں من پسند لوگوں کو لانے اور من پسند پالیسیز کو دوام بخشنے کے لیے تنظیم کے اندر تنقیدی کلچر کو ختم کیا گیا،تنظیمی ساخت کو اس سے نقصان پہنچا ہے تنظیمی اراکین مرکز سے قطع تعلق کر کے ہمیں جوائن کریں۔

ہم درحقیقیت جمہوری لوگ ہیں اور تنظیمی سرگرمیوں کو جمہوری اقدار کےعین مطابق گامزن کریں گے۔ اسی بیانیے کو لیکر بساک کے خلاف زون بننے شروع ہوگئے اور زونل عہدیداروں کو ڈاکٹر شکیل بلوچ اور اس کے ساتھیوں کے سربراہی میں سامنے لایا گیا اور انہیں باقاعدہ مبارک باد پیش کی گئی، انہی منتخب ہونے والے عہدیداروں میں سے ایک کراچی یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ عوض رحیم تھا جو مرکز سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والے کراچی زون کا جنرل سیکریٹری منتخب ہوا، جس کے بعد انہیں مختلف اشخاص کی جانب سے مبارک باد دی گئی کیونکہ یہ جنرل سیکریٹری کا عہدہ تھا جو یقینا ایسا عہدہ ہے جہاں انسان شعور و سنجیدگی کی بنیاد پر منتخب ہوتا ہے مگر چند ہفتے کے بعد عوض رحیم نے سسٹم کے اندر رہ کر حالات کا تجزیہ کیا اور خود کو غلط راستے میں پاکر استعفی دیا، جب سوشل میڈیا میں استعفی کا اعلان کیا گیا تو جمہوری سوچ رکھنے والا اور تنقیدی کلچر کو فروغ دینے والے شکیل بلوچ نے اپنے گروہ کے سابق ساتھی اور کراچی یونیورسٹی زون کے سابقہ جنرل سیکریٹری کو بزدل اور ڈرپوک کا لقب دیا۔

شکیل بلوچ جو کہ بساک کوجمہوری اور قومی تنظیم بنانے کی دعوے کرتے ہیں، کل اس نے سوشل میڈیا میں ایک ساتھی کی استعفے کے ردعمل میں فیس بک پر انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کیے۔ کیا یہ جمہوری بساک ہے؟ کوئی ساتھی کسی بھی وجوہات کے بنا پر استعفی دے سکتا ہے جو اس کا حق ہے۔ بساک کے پہلے سے قاٸم زونز کے عہدیداروں کو استعفی دینے پر اکسایا گیا اور ان کو مرکز کے خلاف سرگرم عمل کیاگیا، کیا مرکز نے سوشل میڈیا یا کسی اور میڈیا فورم پر کوئی مہم جوئی کی ؟ اگر اس کے ثبوت ہیں تو آپ ان ثبوتوں کو پیش کریں آئے دن مختلف آرٹیکل میں وہ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں تمام دوستوں نے دیکھا کہ لفظ “لگور” ڈاکٹر شکیل نے استعمال کیا ہے بلکہ اسی کے ساتھ اپنی پوری ٹیم کو عوض رحیم کے خلاف متحرک کر دیا۔

انہوں نے جو الفاظ سوشل میڈیا میں ادا کئے ان میں سے کچھ جملوں کو بطور ثبوت لیتے ہیں، “ہمیں پہلے سے پتہ تھا آپ ایسا کریں گے“ سوال پیدا ہوتا ہے اگر جناب آپ لوگوں کو پتہ تھا تو پھر انہیں اپنے نام نہاد کاروان میں شامل کیوں کیا؟ ایک اور جملہ ” آپ کہاں کے سیاست دان ہیں“۔ اگر نہیں تھے آپ نےکیوں انہیں اس اہم عہدے پر فائز کیا؟ جہاں بھی بساک کےنام پر زون قائم کئے جارہے ہیں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر عہدے سونپتے ہیں آپ خود ایسے اعمال کا حصہ بن رہے ہیں، جس کا الزام آپ مرکز پر لگاتے ہیں ، آپ یہ بتادیں کہ کراچی زون آپ لوگوں نے قاٸم کی صدر کے عہدے کے علاوہ اور کونسے عہدے کے لیے الیکشن ہوئے؟ نہیں ہوئے تو آپ کی سلیکشن کا راگ کس چیزکا؟ انہوں نے پھر بیان دیا کہ عوض رحیم کا استعفی قبول کرتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ عوض رحیم الیکشن لڑ کر منتخب ہوئے تھے یہ تو ہر کسی کو پتہ ہے کہ اس زون کو قاٸم کرنے کی لیے صرف صدر کےعہدے پر الیکشن ہوئے تھے تو پھر کیوں جھوٹ بول کر طالب علموں کو بدزہن کرنا چاہتے ہیں۔

دیگر چند چیزیں غور طلب ہیں کہ آپ نے شال زون قائم کی تو وہاں طارق بروت مہمان خاص تھا، مجھے اس عمل نے بہت ہی کنفیوژن کا شکار کیا ہے کہ لفظ سینئر رکن کیا ہے؟ ایک شخص یونٹ کی زمہ داری تک نہیں پہنچا تو وہ کیسے رہنما بن سکتا ہے؟ طارق بروت کی بساک میں کونسی خدمات ہیں، جو مرکز کے خلاف اجلاسوں کی بطور مہمان خاص ہے،اوتھل زون میں بھی یہی ہوا بائیکاٹ ہونے کے بعد بھی بساک کے کل ممبر اپنی جگہ پر میٹینگ میں بدستور موجود رہےہیں لیکن وہ ویڈیو میں بتا رہے ہیں کہ بس زون اور یونٹ کے زمہ دار ہیں، جو محض یس مین ہیں۔ مگر دوسرے دن لیکچر پروگرام میں ١٠۴ ممبر کہاں سے آئے یہ یقینا بساک کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو ظاہر کرتا ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ بساک ہی وہ طاقت ور تنظیم ہے جس نے اپنی مرکزی کابینہ کے ممبر کے آئین کی پامالی پر ایکشن لے کر یہ ثابت کردیا کہ آئین سے بالاتر کچھ بھی نہیں ۔

ایک بات میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ آپ کسی کی بلیک میلنگ میں نہ آئیں اور موجودہ بحرانی کیفیت کا تنقیدی جاٸزہ لے کر اپنی رائے قائم کریں یہ سب اخلاقی دائرے میں رہ کر کریں کہیں اگر ہم نے خود کو غلط پایا تو خود کو درستگی میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کریں بلکہ سیاسی سوچ اور مستقل مزاجی سے ہی اپنی غلطیوں کا اصلاح کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں