بی ایس او ایک پُرامن جمہوریت پسند تنظیم – گزین گورگیج

437

بی ایس او ایک پُرامن جمہوریت پسند تنظیم

تحریر: گزین گورگیج

دی بلوچستان پوسٹ

بی ایس او ایک پرُامن طلباء تنظیم ہے۔ جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اس میں کوئی شک نہیں بی ایس اوہمیشہ طاقتوروں کے زد میں رہی ہے۔ نہ صرف آج بلکہ کئی دہائیوں سے یہ روایت چلتا آرہا ہے۔ کئی دہائیوں سے مختلف حربے استعمال کر کے بی ایس اوکے لیڈروں کوخوفزدہ اور لاپتہ کر کے انکو بی ایس اوکے پلیٹ فارم کی جدوجہد سے منتشر کرنے کی بھرپور سازشیں کی گئیں ہیں اور اب بھی یہ روایت جاری و ساری ہے۔ ریاست نے ہمیشہ جمہوریت اور آئین کی دائرے کو توڑ کر بلوچ طلباء کو خوفزدہ کر کے بی ایس او جیسی تنظیم کو کُچلنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

بی ایس او نے قید وبند کی صعوبتیں کاٹنے کے باوجود ثابت قدم ہو کر ہمیں نہ صرف مخلص قیادت فراہم کی ہے بلکہ اسکےساتھ آگاہی اور روشن خیالی کو پروان چڑھا کر بلوچ طلباء کو سیاست کیلئے ایک مُستقل ماحول بھی فراہم کیا۔ اور اب ریاست کو اپنی یہ پُرانی روایت کو بدلنا پڑے گا بزور شمشیر کسی جمہوری طرز جدوجہد کو دبایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی بی ایس او اپنی جمہوری جدوجہد سے دستبردار رہے گی۔ بی ایس او و بلوچ طلباء کو یہ جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ پُرامن طریقے سے اپنی حقوق کیلئے جدوجہد کریں۔

اب بی ایس او کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

اگر ہم تاریخ میں بیسویں صدی سے لیکراکیسویں صدی تک (بی ایس او) کی اس طویل سفر پر نظر ڈالیں تواکیسویں صدی میں بلوچ طلباء کے اتفاق اور اتحاد نہ کرنے کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس تنظیم کی بنیاد پہلی بار (بلوچ اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل آرگنائزیشن) کے نام سے 1962 میں کراچی میں رکھی گئی۔ جسکا بنیادی مقصد بلوچ طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرکے ان میں قومی وسیاسی شعور و آگاہی اُجاگر کرنا اور انکے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا تھا۔

26 نومبر 1967 کو تنظیم کے نام سے جڑے ہوئے (ایجوکیشنل ) لفظ کوختم کرکے باقاعدہ طور پر تنظیم کا نام (بلوچ اسٹوڈنٹس آگنائزیشن)(BSO) رکھا گیا اور پہلا کونسل سیشن منعقد کیا گیا۔ پہلے کونسل سیشن میں ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ (بی ایس او )کے پہلے چیئرمین اور بیزن بلوچ پہلےسیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

بدقسمتی سے (بی ایس او) وجود میں آتے ہی آپسی اختلافات کی بنا پر تقسیم ہوئی۔1967ء میں کراچی میں بی ایس او کو دولخت کیا گیا ۔ پرو سردار گروپ اور اینٹی سردار گروپ کو وجود میں لایا گیا تھا۔ یہ تقسیم در تقسیم کا عمل اب بھی جاری و ساری ہے۔ جسکی وجہ کئی نظریاتی دوست مایوس ہو کر بلوچ سیاست سے کنارہ کش ہوئے اور سیاست کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیا۔

سنہ 1974 میں بی ایس اوکے یہ دونوں دھڑوں نے آپس میں مذاکرات کرنے کے بعد اپنے تمام اختلافات کو ختم کرکے انضمام کا فیصلہ کیا، جس کے بعد مشترکہ کونسل سیشن بلایا گیا۔ جس میں ایوب جتک چیئرمین اور ڑاکٹر یاسین بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تھے۔

1967ء جو انتشار پھیلایا گیا، اُسے اب تیسری نسل بھگت رہی ہے۔ ہماری آپسی چپقلش اور غلط فہمییوں کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کو گلے لگانے کیلئے کسی بھی طرف سے اور کسی بھی زاویے سے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی جا رہی ہے۔ اب بھی بلوچ اسٹوڈنٹ سے منسلک کئی تنظیمیں موجود ہیں۔جو ایک دوسرے سے نہ صرف سیاسی بلکہ نظریاتی اختلافات رکھتے ہیں ۔ اور ساتھ میں ایک دوسرے کی وجود سے بھی انکاری ہیں۔ (بی ایس او) کے تقسیم کی ایک وجہ یہاں کے سیاسی پارٹیاں بھی ہیں۔ جہاں پر ہر پارٹی نے اپنے اسٹوڈنٹ وینگ بنایا ہے۔ اور ان طلباء تنظیموں کو اپنے سیاسی پارٹیوں کی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا یہ طلباء تنظیم اپنے ہر فیصلے پرآزاد ہوتا۔اسی وجہ سے آج طلباء کو بہت ساری دشواریاں پیش آتے ہیں۔

اگر ہم سیاسی پارٹیوں کی اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ تو پھر سب سے پہلے ان تمام طلباء تںطیموں کو ایک رائے قائم کرنا ہو گا۔ یہاں پر نیشنل ازم کے نام سے جتنے بھی سیاسی پارٹیاں تقسیم ہیں ۔ ان تمام کو ایک پلیٹ فارم پر مشتمل کرنا بی ایس او کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ بی ایس او پر انحصار کرتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں