بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بی ایس او آزاد کا بائیسواں قومی کونسل سیشن بنام معلم آزادی شہید صبا دشتیاری و بیاد درسگاہ آزادی خیر بخش مری آج کونسل سیشن کے تیسرے دن کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا ہے۔
بائیسویں قومی کونسل سیشن میں مرکزی چئیرمین کا خطاب،آئین سازی، سیکرٹری رپورٹ،تنقیدی نشست،تنظیمی امور،عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئیندہ لائحہ عمل کے ایجنڈوں کو شامل بحث کیا گیا۔
قومی کونسل سیشن کے پہلے روز مرکزی چئیرمین کے خطاب، آئین سازی،سیکرٹری رپورٹ کے ایجنڈوں پر بحث کیا گیا جبکہ دوسرے روز تنقیدی نشست، تنظیمی امور اورعالمی و علاقائی سیاسی صورتحال کے ایجنڈوں کو پروگرام کا حصہ بنایا گیا۔آج قومی کونسل سیشن کے تیسرے دن آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر کونسلران کی جانب سے پیش کئے گئے تجاویزات پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔تجاویزات پر بحث و مباحثے کے بعد تنظیم کی بہتری اور مضبوطی کے لئے دو سالہ پروگرام و پالیسز کی منظوری دی گئی۔
آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں تنظیمی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے بعد موجودہ مرکزی ساخت کو تحلیل کرکے الیکشن کمیشن کا چناؤ عمل میں لایا گیا۔ مرکزی کمیٹی کے رکن عائشہ بلوچ الیکشن کمیشن کی سربراہ منتخب ہوئے جبکہ ھانی بلوچ اور مہلب بلوچ الیکشن کمیشن کی ممبرز منتخب ہوئے۔
انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے سربراہ نے باقاعدہ تنظیمی عہدوں کے لئے منتخب ہونے والے ذمہ داران کے ناموں کا اعلان کیا جس میں ابرم بلوچ بلا مقابلہ چئیرمین کے لئے منتخب ہوئے جبکہ مہر زاد بلوچ بلا مقابلہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئی۔
انتخاب کا عمل مکمل ہونے کے بعد بند کمرہ اجلاس کی کاروائی ختم کرکے حلف برداری کی تقریب منتخب کی گئی جس میں منتخب ہونے والے ذمہ داران اور ممبران سے سابقہ چئیرمین سہراب بلوچ نے حلف لیا۔
حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے۔ چئیرمین سہراب بلوچ نے کہا کہ میں منتخب ہونے والی مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے دوستوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہو جنہوں نے مشکل حالات میں تنظیم کی مضبوطی کے لئے کامیاب کونسل سیشن کا انعقاد کیا اور اس کونسل سیشن میں تنظیم کو پورے بلوچستان میں منظم و فعال بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔سہراب بلوچ نے کہا کہ میں امید کرتی ہو کہ منتخب ہونے والے ساتھی اپنے ذمہ داریوں اور فرائض کو بخوبی سمجھ کر تنظیم کے اہم مقاصد کے حصول کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
الیکشن کمیشن کے تحلیل ہونے کے بعد تنظیم کی ذمہ داریاں نئی مرکزی کمیٹی کے سپرد کئ گئی۔جس کے بعد نو منتخب چئیرمین ابرم بلوچ نے قومی کونسل سیشن کے شرکاء سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں سب سے پہلے تمام ممبران کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہو جنہوں نے نامساعد حالات میں قومی کونسل سیشن کا انعقاد ممکن بنایا۔اس مشکل حالات میں قومی کونسل سیشن کا انعقاد ممبران کی تنظیم سے گہری شغف اور اپنے نظریات سے جڑے رہنے کا واضح ثبوت ہے۔
منتخب ہونے والے کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہو جنہوں نے تنظیم کو منظم و فعال بنانے کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور میں بحثیت چئیرمین امید کرتا ہو کہ تمام ممبران اور منتخب ہونے والے مرکزی کمیٹی کے ساتھی تنظیم کے نظریات پر عمل پیرا ہو کر آئندہ دو سالہ پروگرام اور تنظیمی نظریات کو کوُ بہ کوُ پہنچا کر قومی تحریک اور تنظیم کو پورے بلوچستان میں فعال اور منظم بنانے میں ایک اہم کردار ادا کریں گے۔
نو منتخب چئیرمین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تنظیم کی کامیابی کا دارومدار ممبران کے پہیم و فراست،متانت اور تنظیم کے پروگرام اور نظریات سے جڑے رہنے کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔نظریات سے بیگانگی اور تنظیمی اہمیت سے نا واقفیت ایک ممبر کو تَعلی، تنزہ اور تفوق کی جانب گامزن کردیتا ہے جو تنظیم کے زوال اور تنظیم میں شخصیت پرستی کا باعث بنتاہے اور شخصیت پرستی تنظیم میں چاپلوسی اور عقیدہ پرستی جیسے لعنت کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ہماری اولین کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ تنظیمی ممبران کو نیشنل ازم کے نظریات کی بنیاد پر تنظیم کے ساتھ جوڑے رکھیں کیونکہ نظریات ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو تنظیم کو اور قومی تحریک کو مضبوط سے مضبوط تر بنا سکتی ہے۔
چیئرمین نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ انقلاب کی کامیابی کا دارومدار انقلابی تنظیم کی موجودگی کے بغیر ناممکن ہے۔انقلابی تنظیم کے بغیر انقلاب کی کامیابی بس ایک خواب ہوگا۔انقلابی حالات میں تبدیلی اسوقت ممکن ہوتی ہے جب معروضی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تنظیم کی داخلی تبدیلیوں پر غور و خوص کیا جائے۔ایک انقلابی تنظیم میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اتنا مستحکم ہو کہ تنظیمی پروگرام کو عوام الناس اور طالب علموں تک پہنچا سکے۔
آج ہمیں ان باتوں پہ غور کرنا چاہئیے کہ جس مقصد کے لئے تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ تنظیم اس مقصد کو معروضی حالت کے مطابق کیسے انقلابی اصولوں پر عمل پیرا ریکر حاصل کر سکتی ہے۔ جبکہ تنظیم کو ہر ایک بلوچ طلبہ تک پہنچانا چاہیے جس کے لیے تنظیم کو قائم کیا گیا ہے۔
اگر ہم ان نقطوں پہ غور کریں اور موضوعی اور معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل دیں اور ان پالیسیوں پر عملدرآمد کو ممکن بنائیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی سے نہیں روک سکتی۔اگر ہم نے معروضی حالت کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینے کے بجائے بیگانگی اور خوش فہمی کا شکار بننے کی کوشش کی تو تنظیم زوال کی جانب محو سفر ہوگا جسکی زمہ داری ہم پر ہوگی۔
انقلاب کی کامیابی میں تنظیم کی اہمیت اور ضرورت بیان کرتے ہوئے نو منتخب چئیرمین نے کہا دنیا کی تحریکوں میں تنظیموں کا ایک اہم کردار رہا ہے جنہوں نے مشکل اور نامساعد حالات میں قوم کی کشتی کو منجدھار سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج پاکستان بلوچ قومی تحریک سے جڑے بلوچ طالب علموں کو غنیم عَدُو شب دیجور کی سیاہی کی جانب دھکیلنے میں مصروف عمل ہے۔یہی طالب علم جو ہمارے قومی مستقبل کے معمار اور گہرُ ہے انہیں تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشوں پر عمل پیرا ہے۔ ایسے مشکل اور انقلابی حالات میں تنظیم کی اہمیت اور مضبوطی سے انکار کرنا قومی تحریک کو زوال کی جانب لے جانے کے مترادف ہے۔اس لئے بحثیت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ممبر کے ہمیں ان طالب علموں کو تنظیم میں اکھٹا کرنے اور ان کے درمیان زیادہ سے زیادہ سیاسی کام کرنے کی ضرورت پر زور دینا چاہئیے۔عملی جدوجہد کے ذریعے تنظیم کو مضبوط اور تیزی سے ایک طاقت بننے کی طرف زور دینا چاہئیے۔بے مقصد تنازعات اور بے مقصد تنقید کرنے کے بجائے تعمیری تنقید کی جانب توجہ دینا ہوگا۔
چئیرمین نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ طالب علموں کی سیاسی تربیت کے لئے انکے درمیان مذاکروں کا اہتمام کرنا چاہئیے ۔پاکستان چائنا پالیسی،بلوچ قومی تحریک کا موجودہ مرحلہ اور انقلابی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاننے کے لئے نوجوان طالب علموں کو نظریاتی رشتوں کے بندھن میں باندھ کر ہی مقصد کے حصول میں کامیابی ممکن ہے۔