بی ایس او آزاد سے جڑی امیدیں
تحریر: امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ سیاسی تاریخ میں بی ایس او مادر علمی کی حیثیت رکھتا ہے۔جس نے اپنے قیام سے لیکر دور جدید میں بلوچ نوجوانوں کی نظریاتی تربیت کو اپنا قومی نصب العین سمجھ کر ادا کیا۔ بلوچ نوجوانوں کی سیاسی تربیت ہی تنظیم کا جرم ہے کہ قبضہ گیر ریاست نے تنظیم کے سرکردہ لیڈر شپ سمیت کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔انہیں زندانوں میں قید رکھا اور تشدد کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی اور تنظیم پر پابندی لگا کر اسکی سیاسی سرگرمیوں کو کالعدم قرار دیا۔
کریک ڈاؤن،پابندی اور دیگر ریاستی سرگرمیاں تنظیم کی سرگرمیوں کو بعض حد تک متاثر کئے ہوئے ہیں لیکن تنظیم کے رہنماؤں اور کارکنان کے آہنی عزم اور اپنے نظریات سے جڑے رہنے کو کمزور نہ بناسکی۔آج بھی تنظیم کے کارکنان ناگفتہ بہ حالات میں تنظیم کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا اعادہ کئے ہوئے ہیں اور نوجوانوں کی نظریاتی تربیت کو قومی نصب العین سمجھ کر ادا کررہے ہیں۔
جب 1967 میں بی ایس او کا قیام عمل میں لایا گیا تو بی ایس او کے نوجوانوں کو تقسیم کرنے کی بیرونی پالیسیوں پر ہمیشہ اپنے لوگوں نے عمل کیا اور اس کوئی کی ترجیحات پر اپنوں نے اپنوں کی کردار کشی کرنے شروع کی۔2002 میں جب بی ایس او اپنی حقیقی مقصد کی جانب محو سفر ہوئی تو اسکے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا اور اس کریک ڈاؤن کے اہم کردار غنیم کے ساتھ کچھ اپنے بھی تھے۔درجنوں لیڈران اور سینکڑوں کارکنان کی ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل عام کی پالیسی کو تقویت دی گئی اور بلوچ معاشرے کو جمود کا شکار بنانے کے لئے،نوجوانوں کو شعوری بانجھ بنانے کے لئے تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا لیکن بی ایس او آزاد کی شعوری جدوجہد مذید مضبوطی سے اپنے قومی آزادی کے حصول کے لئے اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بی ایس او آزاد کا یہ سفر قومی آزادی کے حصول اور آزادی کے بعد بلوچ قوم کو منظم اور مضبوط بنانے کی جدوجہد اسی طرح جاری رہے گی۔
آج دنیا دوسری لہر کی تہذیب سے نکل کر تیسری لہر میں داخل ہوچکی ہے جو علم اور ٹیکنالوجی کی تہذیب کہلاتی ہے۔ہر تہذیب کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور یہ نئی تہذیب نئے تقاضوں کے مطابق جدوجہد کا درس دیتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جب کسی ملک پر قبضہ ہوتا ہے تو وہ مکمل جنگ کی لپیٹ میں چلا جاتا ہے اور اسی حقیقت کے مصداق بلوچ سرزمین معاشی،سیاسی،ثقافتی،تہذیبی،تعلیمی،سماجی اور فوجی جنگ کی لپیٹ میں ہے اور اس جنگ میں وہی کامیاب ہوگا جو نئے دور کے مطابق اپنی جدوجہد کو جاری رکھ کر کم سے کم نقصان اٹھا کر منزل کی حصول میں کامیابی کے سفر کو جاری رکھ سکے گا۔
اس صورتحال میں تنظیم کے رہنماؤں اور کارکنان کی کیا ذمہ داریاں ہونگی کہ وہ اس جنگ سے بلوچ قوم کو کامیاب بنانے کے لئے کونسی حکمت عملیوں پر منزل کی جانب محو سفر ہونگے کیونکہ بلوچ قوم کی امیدیں بلوچ نوجوانوں،بی ایس او آزاد اور بی این ایم پر مرکوز ہے۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ماضی کی غلطیوں پر غور و فکر کرکے مستقبل کا خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے محنتی قوت تیار کرنے کی ضرورت ہے جو بلوچ معاشرے کو اس مکمل جنگ کے لئے تیار کرکے اور اس جنگ کو معاشرے کے تمام طبقوں تک پہنچا کر اس جنگ کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کرسکے اور یہ بھاری ذمہ داری بحثیت ایک طالب علم آرگنائزیشن بی ایس او آزاد پر عائد ہوتی ہے۔
آج خوش فہمی میں مبتلا ہونے اور اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کے معنی تنظیم کو کمزور کردینے اور تحریک کو کمزور کردینے کے مترادف ہے۔اس لئے ہمیں ذاتیات کے خول سے نکل کر تنظیم اور تحریک کی مضبوطی کے لئے پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو وقت اور حالات کے عین مطابق ہو اور جس کا اثر معاشرے کے تمام طبقات پر پڑے۔
ہمیں ان چیزوں پر غور کرنا ہوگا کہ آیا تنظیم کی پالیسیاں تنظیم کے لئے سود مند ثابت ہورہی ہے کہ نہیں اگر کوئی بھی فیصلہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں تو اس کو تبدیل کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کی جائے۔
تنظیم میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو روکنے،کردار کشی،انتقامانہ ذہنیت،مجولیت پسندی،جیسے عمل کی بیخ کنی کرنے کے لئے نوجوان کارکنان کی نظریاتی تربیت پر زور دینے کی ضرورت پر زور دینا چاہئیے کیونکہ نظریاتی کارکن ذاتی مفادات کے لئے تنظیم کو نقصان پہنچاننے کی سنگین غلطیوں کا کبھی ارتکاب کرنے کی کوششوں کا حصہ نہیں ہوگا۔
بی ایس او کا یوم تاسیں عہد تجدید کا دن ہے اس دن ہم بی ایس او کی قربانیوں، سیاسی غلطیوں،کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اس بات کا عہد کرلیں کہ بی ایس او آزاد کو مضبوط و منظم بنانے کے لئے عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق جدوجہد کرینگے اور بلوچ معاشرے کو مکمل جنگ سے آزادی دلانے کے لئے جنگ کو سہارا بنا کر کامیابی حاصل کرلیں گے کیونکہ قوم کی امیدیں کا مرکز و محور بی ایس او آزاد ہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں