بی ایس او آزاد اور پابندی کے خلاف اُٹھنے والی آواز
تحریر: غنی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“بڑی دیر کر دی مہربان آتے آتے “ کے مصداق اگر ہم دیکھ لیں پچھلے ڈیڑھ سال کے اندر یہ تیسری مرتبہ ہے کہ بی ایس او آزاد کے دوست تنظیم پر لگائے گئے پابندی کے خلاف آواز اٹھا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر آن لائن کمپئن چلا رہے ہیں، یاد رہے ان دو مہموں میں سوائے بی ایس او آزاد کے ممبروں کے باقی کسی نے بھی حصہ نہیں لیا ہے حتیٰ کہ آزادی پسندوں نے بھی بہت کم حصہ لیا، اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ بی ایس او آزاد کا یہ موقف آزادی پسند حلقوں میں بھی ناپسند کیا جاتا ہے یا ان کو اس پر تشویش ہے لیکن ابھی تک یہ بات کلئیر نہیں ہے کہ وہ پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کس سے کر رہے ہیں؟ عالمی عدالت، عالمی انسانی حقوق کے ادارے یا عالمی طاقتوں سے؟ یا پھر اس ریاست سے اپیل کر رہے ہیں جن کے خلاف وہ مورچہ زن ہیں جس سے علیحدگی چاہتے ہیں؟
ایک اور سوال ذہن میں آجاتا ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ اتنے سال گذرنے کے بعد آج بی ایس او آزاد کھل کر پابندی ختم کرنے کی بات کر رہی ہے ؟
منظور بلوچ کا ایک کالم بنعوان “ کیا بی ایس او کالعدم قرار دی جائے گی ؟ “ جو کہ 29جنوری 2002 کو روزنامہ “ آساپ “ میں چھپ چکی ہے۔ اس میں لکھتے ہیں “ کہ بلوچستان نیشنل موومنٹ کی ذیلی تنظیم بی ایس او محراب اپنے پندرھویں کونسل سیشن کے موقع پر مزید دو حصوں میں بٹ گئی ۔ یوں انضمام کی کوششوں کے نتیجے میں بی ایس او چار دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور شکست و ریخت کا یہ عمل ایسے وقت میں شروع ہوا جب مرکزی حکومت نے بلوچستان حکومت سے بی ایس او پر پابندی لگانے سے متعلق رائے پوچھی ہے ۔ اس حوالے سے دیکھیں تو بی ایس او کی قیادت کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے کہ ایک جانب سے حکومت اس کے خلاف کاروائی کرنے میں سنجیدہ نظر آتی ہے ۔”
اگر منظور بلوچ کی باتوں کو لے کر سوچا جائے تو کیا کہیں ان دوستوں نے بہت دیر نہیں کر دی کیونکہ کالعدم کی باتیں دو ہزار دو میں ہو رہیں ہیں اور دو ہزار تیرہ میں بی ایس او کالعدم قرار دی جاتی ہے ۔ اس درمیان میں پورے دس سال کا عرصہ گزر جاتا ہے اس دوران مرکزی قیادت اپنی پالیسیوں پر غور کرتی یا پالیسیاں تبدیل کرتی یا کسی متبادل کیلئے سوچتی تو شاید اتنے بڑے نقصان سے بچ جاتے ۔
بات ہو رہی تھی کہ پابندی ختم کرنے کا لیکن سب کو پتہ ہے بی ایس او کی مرکزی قیادت اپنی بعض غلط اور وقتی پالیسیوں کی وجہ سے ریاست کو یہ موقع فراہم کررہے تھے کہ وہ ان پر پابندی لگائیں ۔ جیسا کہ حمایت سرمچاران ریلی سے لے کر کھلم کھلا مسلح جدوجہد کی حمایت تک ، نیٹو فورسز سے لے کر ایران کے خلاف برملا بیان دینے تک ۔
ایک طلبہ تنظیم کے ہوتے ہوئے وہ اس طرح کے فیصلوں کی بوجھ کبھی بھی برداشت نہیں کر سکا.
موجودہ قیادت کی جانب سے اس طرح کی آواز بلند کرنے کو دیکھ کر ذہن میں کچھ سوال ابھرتے ہیں کہ کیا موجودہ قیادت کو اپنے ماضی کے غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے، اگر ہوگیا ہے تو پھر وہ برملا اپنے ماضی کے فیصلوں کو غلط قرار دے کر ان سے دست بردار کیوں نہیں ہوتے ؟ اگر وہ آج بھی اسی ضد پر ہیں کہ ہم اسی پالیسیوں کو لے کر آگے چلیں گے تو پابندی ختم کرنے کی بات دیوانے کی خواب کے سواء اور کچھ نہیں ۔
ایک بات واضح ہے کہ بی ایس او آزاد پر پابندی کی سب سے اہم وجہ بلوچستان کی علیحدگی کی بات کرنا ہے جب یہی موقف رہے گی تب تک پابندی ختم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی بی ایس او کے دوست اوپن سیاست کر سکتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے آج اس کی قیادت پابندی ختم کرنے کی بات کررہی ہے تو وہ اس موقف کے بارے میں بھی سوچ رہیں ہونگے ۔ اگر وہ آزادی کے موقف سے دست بردار ہونگے تو اتنے سالوں سے اس موقف کی بنا پر اس پلیٹ فارم پر جتنے نوجوان جڑے رہے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ کیا وہ علیحدگی کے موقف سے دست برداری کے بنا پر خیر بخش مری اور ڈاکٹر اللہ نذر سے لے کر بشیر زیب تک کو ڈِس اون کرینگے یا نہیں ؟
زاکر سے لے کر زاہد تک جوکہ لاپتہ ہیں اور ان کی لاپتہ ہونے کی ایک اہم وجہ علیحدگی کے موقف کو لے کر بی ایس او آزاد کے ساتھ جڑنے کی ہے ۔ ان کا کیا کرینگے ؟
اگر بی ایس او آزاد علیحدگی کے موقف سے دست بردار ہوجائے گی تو کس قسم کی سیاست کرے گی وہی جو بی ایس او ، بی ایس او بچار اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کر رہے ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ بلوچ جدوجہد نے بلوچ قوم کے اندر ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے ۔ لکیر کے اِس پار والے بھی واضح ہیں اور اُس پار والے بھی واضح ہیں تو ان حالات میں بی ایس او آزاد کہاں کھڑی ہو گی ؟کیونکہ بی ایس او آزاد اپنے آپ کو ان سب سے علیحدہ سمجھتی ہے ۔
اگر آزادی کے موقف کے حوالے سے یا ان سے دست برداری کے بارے میں سوچا جا رہا ہے تو بی ایس او جیسی تنظیم ایسے خاموشی سے دست بردار نہیں ہو گی بلکہ ریاست کے ساتھ بات چیت کی طرف جائے گی ۔ ریاست کے ساتھ بات چیت کیلئے میرے خیال میں اب وقت بہت دور نکل چکا ہے ۔ اگر پھر بھی بات چیت ہوگی تو کیا ریاست بھی ان کے ساتھ بات چیت کرے گی یا نہیں ؟ ریاست بھی ان کو سنجیدہ لے رہی ہے اور قوت سمجھ رہی ہے کہ نہیں ؟ لیکن جہاں تک میرا مشاہدہ ہے بلوچ علیحدگی پسندوں میں اس وقت صرف مسلح جدوجہد کو ریاست سنجیدہ لے رہی ہے اور ان کو اپنے مقابلے میں ایک قوت سمجھ رہی ہے ۔
اگر بات چیت کی بھی جائے تو ریاست کا مطالبہ واضح ہے وہ ہے آزادی کے موقف سے دست بردار ہو کر ریاستی قومی ادارے میں شامل ہونا ہے اور ریاست کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنا ہے لیکن آج کل ساحل و سائل سے لے کر قومی خودمختاری اور حقیقی طلبہ سیاست ریاست کے آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں آتے کیونکہ ان پر بھی بات کرنا محال ہے، لیکن بی ایس او آزاد کی جانب سے معاہدے اور مطالبات کیا ہونگے ؟ اگر ان تمام باتوں کا جواب نفی میں ہوگا وہ کسی بھی موقع پر موقف سے دست برداری اور ریاست کے ساتھ بات چیت کیلئے نہیں سوچ رہے ہیں تو پھر میرے خیال میں اس طرح کے کمپئین چلانا زیاں وقت ہے اور پابندی ختم کرنے کی بات اندھیرے میں تیر چلانے کی مترادف ہے کیونکہ یہ تیسری کمپئین ہے لیکن اس کے باوجود نہ کوئی ڈسکشن ہو رہی ہے نہ کوئی بحث و مباحثہ اور نہ ہی کسی کی جانب سے اس کمپئین کی حمایت کی جا رہی ہے ۔
لہذا ایسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو مجھ سمیت بہت سے ایسے نواجون کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں اور ان پر ڈسکشن ، بحث و مباحثے کی گنجائش بھی ہے اور ہونا چاہیے. لیکن دیکھتے ہیں کہ پابندی ختم کرنے کی بات صرف سوشل میڈیا کمپئین تک محدود رہے گا یا آگے بھی چل سکتا ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں