بہادر بلوچ بیٹیاں
تحریر: زهره بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جو ہمیشہ حالت جنگ میں رہی ہے. کل پُرتگیز اور انگریزوں کی سامراجیت کے خلاف بلوچوں نے مزاحمت کی تو آج پاکستان اور ایران کے خلاف بلوچ اپنی سرزمین کی دفاع میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرچُکے ہیں.
بلوچستان کی موجوده صورت حال پر اگر ہم نظر آلیں تو بلوچ قوم پچھلے 72 سالوں سے اپنے قومی حقوق کے لئے مزاحمت کررہے ہیں اور اپنی سرزمین کے لئے جد جہد کررہے ہیں. اور اس تحریک میں ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اپنی جانوں کو قربان کیا ہے اور ہر دن اپنےوطن کی خاطر قربان ہورہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان ، بزرگ ریاستی عقوبت خانوں میں سالوں سے اذیتوں کا شکار ہیں.
دوسری طرف ہم دیکھیں تو بلوچ مزاحمتی تاریخ میں بلوچ بیٹیوں کا بھی بڑا کردار رہا ہے، جو ہمیشہ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں اور اپنی قومی ذمہ داریوں کو اپنا فرض سمجھ کر اسے نبھاتے رہے ہیں۔
بلوچ بیٹیوں نے بھی بلوچ قوم کی تاریخ میں اپنا نام رقم کردیاہے جو ہمیں مغربی بلوچستان میں ایران کے خلاف شہید داد شاه کی بہن بی بی هاتون بلوچ کی شکل میں ملتی ہے اور میر چاکر خان رند کی بہن بانڑی بلوچ کی شکل میں بھی بلوچ تاریخ میں امر ہے.
آج بھی بلوچ قوم کی بہادر بیٹیاں اپنا فرض پورا کررہے ہیں. جو کامریڈ بانُک کریمہ کی شکل میں ایک زنده مثال ہے، جس نے اپنی قوم کی غلامی اور بے بسی کو محسوس کیا اور اپنی قوم کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہے.
آج بھی بی بی گُل بلوچ جیسی بہادر بیٹیاں بلوچ سرزمین پر جنم لے رہی ہیں، جو اپنی قوم پر مظالم اور جبر کے خلاف باتیل کے پہاڑ جیسی کھڑی ہیں۔
آج بلوچ قوم کو ڈاکٹر ماه رنگ بلوچ جیسی بیٹی ملی ہے، جو اپنے والد شہید میر غفار لانگو کی طرح اپنے مظلوم قوم کے ساتھ ہر مشکل میں کھڑی ہے.
آج حوران جیسی بیٹی بلوچ سرزمین پر موجود ہے، جو اپنے لاپتہ بلوچ بھائیوں کے لئے ایک آواز بن گئی ہے اور پوری دنیا میں یہ آواز گونج رہی ہے۔
آج بلوچ سرزمین پر طیبہ جیسی بہادر بیٹی نے جنم لیا ہے، جواپنی ساری خوشیاں بلوچ قوم اور سرزمین کے لئے نھچاور کر بیٹھی ہے. اور اپنے قوم کے حقوق کی پامالی اور مظالم برداشت نہیں کرسکتی اور ان کے خلاف برسرپیکار ہے. جس کی والد حنیف چمروک کو بھی دشمن نے بے دردی سے شہید کردیا تاکہ وه خاموش رہے اپنی قومی جد جہد سے دستبردار ہو۔
آج حانی گُل بلوچ جیسی نڈر اور بہادر بیٹی الله نے بلوچ قوم کو دی ہے، جو اپنے قوم کے درد کو اپنا درد سمجھتی ہے اور لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے جدوجہد کررہی ہے . حانی گل بلوچ کو بھی ریاست نے اپنے منگیتر کے ساته لاپتہ کردیا تھا، بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا. لیکن اسکی منگیتر نسیم بلوچ آج تک لاپتہ ہے.
بلوچستان کے موجوده حالات میں جس طرح بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو لاپتہ افراد کے لواحقین کی زندگیاں ایک مسلسل کب بن جاتی ہیں۔ جیسے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹیاں سَمی بلوچ اور مہلب بلوچ جو پچھلے 11سالوں سے اپنے والد دین جان کے انتظار میں احتجاج کررہی ہیں۔ مہلب اور سَمی 11سالوں سے باپ کے سائے اور محبت سے محروم ہیں. اور 11سالوں سے اپنے والد ڈاکٹر دین محمد کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں.
حسیبہ بلوچ اور نسرین کُرد جیسی بلوچ بیٹیاں بھی اپنے لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں،حسیبہ بلوچ کے ایک بھائی کو پہلے لاپتہ کرکے مسخ شُده لاش پھینک دیا گیا اور نسرین کُرد کے بڑے بھائی علی کرد کو بھی اسی طرح لاپتہ کرکے اسکی مسخ شده لاش پھینک دیا گیا. اب حسیبہ کے ایک اور بھائی اور کزن احسان قمبرانی اور حزب الله قمبرانی کو لاپتہ کیا گیا جن کی بازیابی کے لئے حسیبہ انصاف کے تمام دروازے کھٹکھٹا رہی ہے.
نسرین کرد کے بھائی عبدالحئی کرد کو بھی پچھلے دو سالوں سے جبری طور پر لاپتہ کرکے عقوبت خانوں میں بند کردیا گیا ہے.
یہ آج بلوچستان میں ہر گھر کے حالات ہیں،لیکن بلوچوں کے لئے انصاف کے تمام دروازے بند کردئیے گئے ہیں.
بلوچ قوم کی بہادر بیٹیاں اپنے بھائیوں کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں اور ہر مشکل اور تکالیف کو برداشت کررہے ہیں. بلوچ قوم کی بہادر بیٹیاں ہمیشہ مزاحمت کی علامت رہی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں