بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4144 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار سے میر سلیم بلوچ، داد محمد زہری، خادم بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں غیر مسلح نہتے شہریوں، طلباء، سیاسی ورکروں کے ساتھ ساتھ ان سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا گیا جو پرامن جدوجہد کرنے والے لاپتہ افراد کے خیر خواہ تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ قبضہ گیر فورسز نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو اٹھاکر لاپتہ کیا جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہے۔ ہزاروں لاپتہ افراد کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھینکی گئی۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام ادارے خواہ وہ میڈیا ہو یا عدلیہ اور پارلیمنٹ سب کے سب اس خفیہ ادارے کے قبضے میں ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کو مکمل ایک دشمن قوم کی حیثیت سے ظاہر کیا ہوا ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ، عدلیہ دنیا بھر کے اداروں اور دیگر تنظیموں کو ان ناجائز گرفتاریوں، بلوچ پرامن جدوجہد کے خلاف گمراہ کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ گمشدہ نہیں بلکہ پاکستانی فورسز کے حراست میں ہیں۔ پاکستانی ریاست نہ صرف اس خطے کیلئے ایک سیکورٹی رسک ہے بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک خطرہ ہے۔