بلوچستان آگ کی لپیٹ میں
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کس سے منصفی چاہیں؟ کس کو اپنا مدعا سنائیں؟ مظلوم طلباء ہوں یا برطرف شدہ اساتذہ یا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین سب اس “ریاست”کے ستائے ہوئے مظلوم ہیں. جب احساس کے دہلیز پر بے حسی آ کر دستک دے، اس دستک کی کٹکٹاہٹ سے وہ ہلکی آواز سنائی دے گی تو اسی آواز میں جلتا بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کا بھیانک چہرہ دکھائی دے گا۔
برطرف کئے گئے مسلسل احتجاج پر بیٹھے تربت کے 114 خواتین اساتذہ جنہیں جبری برطرفی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، آج وہی اساتذہ جنہیں اسکولوں میں ہونا چاہیئے تھا، قوم کے معماروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی مصروفیات ہوتی ان کی ،لیکن جلتے بلوچستان میں نہ طلباء چین سے تعلیم حاصل کرپاتے ہیں نا اساتذہ کو ان کا بنیادی حق صحیح طریقے سے دیا جاتا ہے، نا ہی مائیں آرام سے اپنے بچوں کو لوریاں سنا پاتے ہیں اور نا ہی بچے خوشی سے اپنے گھروں میں رہ پاتے ہیں. ریاست آسیب کی طرح ہر اس کوچے پہ کھڑا جلاد کی طرح دکھائی دے گا جلتے بلوچستان میں.
مظلوم اساتذہ جب اس کٹھ پتلی حکومت سے مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ بے حس شئے کو پتھر مارا جارہا ہے اور اس طرف صرف خاموشی کے اور کچھ نہیں مل رہا.
یہ اساتذہ تربت میں برطرف کئے گئے ہیں اور تربت ہی سے پانچ نام نہاد صوبائی اسمبلی کے وزراء کا تعلق ہے۔
وزیر خزانہ ظہور بلیدی، فشیریز کے معاون وزیر اکبر آسکانی، ایم پی اے لالا رشید، سید احسان شاہ ،ماہ جبین شیران اور نیشنل اسمبلی کے میڈم زبیدہ جلال کہنے کو تو یہ نمائندے ہیں لیکن یہ بلوچ قوم کے نمائندے نہیں بلکہ ریاست کے وہ مسلط کردہ نمائندے ہیں کٹھ پتلی بلوچستان حکومت کے وہ پیادے ہیں جن کی سانسیں ہی ریاست سے چلتی ہیں. امیر بلوچستان کے ہر ایک وسائل پر یہ قوتیں ریاست کو کھلی چوٹ دیتے ہیں اور ریاست ان کے سامنے اپنا بچا ہوا وہ غلاظت پھینک دیتا ہے جس سے وہ کچھ لمحہ زندہ رہ سکیں.
کن کن مصیبتوں، آفتوں اور تکالیف کا ذکر کیا جائے؟ کیا بلوچستان کو ریاست پنجاب نے اپنی ماں کا جہیز نہیں سمجھا ہے؟ جب چاہے جس طرح چاہے وہاں اپنی من مرضی سے انہی قوتوں کو مسلط کیا جاتا ہے جس سے ان کے عزائم کی تکمیل ممکن ہو؟ پنجاب کو شہنشاہیت کی جانب راغب کرنے کے لئے بلوچستان کا خون چوس چوس کر اسے ہر لحاظ سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.
جب ریاست بلوچستان میں عوامی مینڈیٹ کو چُرا کر اپنے مسلط کردہ ان قوتوں کو یہاں حکومت دیتا ہے تو ظاہر سی بات ہے نہ یہاں طلباء کو ان کے حقوق ملے گیں نا ہی اساتذہ کو اور نا ہی لاپتہ افراد کے لواحقین کو انصاف فراہم ہوگا.
اس نظام کو ملیامیٹ کرنے کے لئے اس زور دار دھماکے کی اشد ضرورت ہے جو اس سسٹم کے بہرے، اندھے اور گونگے قوتوں کو سننے کے لئے کان، دیکھنے کے لئے آنکھ اور بولنے کے زباں بخشے وگرنہ اس طرح طلباء، اساتذہ اور باقی تمام مکتبہِ فکر کے لوگ سسکتے رہیں گے بلکتے رہیں گے پر ہاتھ کچھ نہیں آئے گا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں