استاد حئی سے جدائی کا دن – بدل بلوچ

656

استاد حئی سے جدائی کا دن

تحریر: بدل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بچپن کا ہر ایک دن بھولا نہیں جاتا لیکن وہ دن میں کبھی بھول نہیں سکتا جب استاد حئی جان کبھی کھیل کے میدانوں سے تو کبھی گھر سے بلا کر اپنے وطن سے، اپنے وطن کی باتوں سے محبت کرنے کا درس دیتا تھا کہ کیسے اپنے وطن سے پیار کرنا ہے، وطن کیا ہوتی ہے، وطن کا کیا قرض ہے ہم پر۔

وہ دن بھی کبھی بھولا نہیں جاتا، جب صبح سات بجے استاد اپنے مشن سے واپس ہوتے تو راہوں میں ہم سے ملتے اور اسکول تک چھوڑ آتے اور اس دس پندرہ منٹ کے راستے میں استاد کا وطن سے محبت کا اندازہ لگانا کہ کس قدر استاد کو وطن سے اور وطن کے ہر ایک چیز سے محبت ہے۔

بد قسمتی سے استاد کا یوں میدانوں میں بلا کر لیکچر دینا اور چلتے راہوں میں اچانک ملاقات ہونا زیادہ وقت تک نہیں رہا؛ استاد سے آخری ملاقات اس کی منگنی سے کچھ دن پہلے ہوا۔ میں اسکول سے واپس آرہا تھا، اچانک استاد سے روبرو ہوا، میں نے کہا ماموں سناؤ آپ کی منگنی ہونے والی ہے؟ وہ پیاری مسکراہٹ سے بولا ہاں، آج تک نظر میں، دل و دماغ میں گھوم رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ میں آج بھی استاد کے سامنے استاد سے یہی پوچھ رہا ہوں کہ ماموں آپ کی منگنی ہونے والی ہے۔

استاد اکثر ہم کو پیارے ناموں سے پکارتے تھے، استاد بڑے پیار سےمیرا نام لیکر جی ہاں کہا؛ میں نے کہا پھر ہم غریبوں کو اپنی منگنی پر بلاؤ گے یا نہیں؟ ہنس کر کہنے لگے یار تم کو نہیں بلاؤںگا تو کس کو بلاؤنگا.

پھر کچھ دن بعد اسکول کی چھٹیوں کی وجہ سے میں شہر سے کہیں اور گیا تھا، وہاں معلوم ہوا کے آج حئی جان کی منگنی ہے، یہ بات سن کر میری خوشیاں حد سے زیادہ ہوگئیں کہ آج استاد کی منگنی ہے۔ کاش میں بھی آج انکے منگنی میں شامل ہوتا، بس یہی ارمان آج تک دل میں ہے کہ میں استاد کے خوشی کا دن بھی دیکھ نہیں سکا۔

پھر حالات خراب ہونے کی وجہ سے استاد نے شہر چھوڑ کر محاذ کا رخ کیا، پھر نا استاد سے کبھی بات ہوئی نہ کبھی ملاقات، بس انتظار میں تھا کہ کب اور کہاں استاد سے ملاقات ہوگی بات ہوگی۔ استاد کا ہم سے بات نہ کرنے کے وجہ ایک ہمارا بچپن بھی تھا۔ والدین ہمیں موبائل فون استعمال کرنے نہیں دیتے، بس اس گمان سے جیتا رہا استاد ہمیں بھول نہیں جائینگے ہمیں ضرور یاد کرینگے، ایک نہ ایک دن کہیں ملاقات بھی کرینگے۔

اس گمان میں دوستوں کے ساتھ پکنک پر جانے کا بڑا شوق تھا کہ وہاں استاد کی رہنے کی جگہ ہے، جہاں استاد دشمن کو نیست نابود کرتا تھا، جہاں استاد دشمن پر حملہ کرنے حکمت عملی بناتا تھا کہ کیسے دشمن پر حملہ کرنا ہے، خود کی حفاظت کیسے کرنا ہے، پھر کیسے اپنے محفوظ جگہ پر پہنچنا ہے؛ عید کے تیسرے دن، دوست نے پکنک پر جانے کی تیاری کی، میرے دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھی، ایسا لگتا تھا کہ استاد سے ملنے جارہا ہوں، ساتھی پکنک پر روانہ ہوئے جب بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو ایسا لگ رہا تھا اب استاد ہمارے سامنے آئیگا، مجھے ساتھ لےجائے گا، اس گمان میں ہم اپنے پکنک پوائنٹ پر پہنچ گئے، جہاں اردگرد کافی اونچے اونچے پہاڑ تھے، دوست شام کے کھانے کا انتظام کر رہے تھے؛ آٹھ نو گھنٹے کے سفر سے کافی تھک بھی گئے تھے، میں ساتھیوں سے کچھ فاصلے پر بڑے پھتر پر ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرکے گمان ہی گمان میں گم ہوگيا۔

استاد نے بڑے پیارے انداز سے آواز دی، نیلی کلر کے پٹھے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے، جو اس سے لمبائی میں کافی کم تھےاور ایک چھوٹا سا چادر ایک بوتل پانی بندوق بازو میں لٹکائے میرے پاس ہی آکر بیٹھ گئے۔ مجھ پر خاموشی اور حیرانی چھا گئی کہ ماں باپ کا لاڈلہ آج ان حالات میں ہے۔

استاد مجھ سے مخاطب ہوا، ہمارا حال حوال کرنے آئے ہو؟ سنگت سناؤ کیسے ہو؟ تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے اور گھر والے کیسے ہیں؟ میں کچھ بول بھی نہیں پا رہا تھا، بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ سنگت تم خاموش کیوں ہو؟ بات کیوں نہیں کرتے؟ بڑے ہمت کے بعد جی بھر سانس لیکر بولا مامو مت پوچھو تماری یادیں ہمیں بہت ستاتی ہیں، مجھے آج بھی 2009 سے لیکر 2010 کا ایک ایک دن یاد ہے، جب تم راستوں میں ملتے تھے، اسکول تک پہنچاتے تھے، گلیوں سے بلا کر لیکچر دیتے اور پتہ ہے تب سے آپ میرے استاد بن گئے ہو۔

سنگت میں بھی تم لوگوں کو بھول نہیں گیا ہوں، مجھے بھی ایک ایک دن یاد ہے اور ایک دن ایک ساتھی شہر سے آیا تھا، میں اُن سے تم لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا لیکن اس نے بتایا کہ ابھی تک آپکے پاس موبائل نہیں ہے، اس لیے تم سے رابطہ بھی نہیں ہو پایا۔ سنگت بس تم اب پریشان مت ہونا، انشاءاللہ بہت جلدی ہم ساتھ ہونگے؛ استاد کے ساتھ گمانوں میں گم زندگی کے حسین لمحہ گذر رہا تھا کہ اچانک سے ساتھی نے ہاتھ لگا کر جگا دیا، اٹھو یار کھانا تیار ہے، کھانا کھاتے ہیں، میری آنکھیں کھل گئں، ایسے کہ خوابوں میں کسی شہزادے کے ساتھ ملاقات ہوا تھا، پھر یوں کسی کا اچانک جگانا شدت سے نفرت آنے کے مترادف ہوتا ہے۔

یوں استاد کی یادوں کے سہارے جیتا رہا، آخر قسمت نے بھی ساتھ چھوڑ دیا، 2014 نومبر کے 8 تاریخ کے دن گھر میں سب ساتھ بیٹھے تھے، اچانک ابو کو کال آیا، ابو گھر سے نکل گئے، پانچ دس منٹ بعد واپس آیا تو افسردہ دل ہوکر کہا حئی جان دو ساتھی سمیت شھید ہوئے ہیں، حئی جان اب ہم میں نہیں رہا، جس کی شہادت تنظیمی راز کی بنیاد پر چھپایا گیا، جو آج انکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں.

بد قسمتی سے استاد آپ کے جانے کے بعد پھر کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن استاد آج بھی آپ ہمارے ساتھ ہو، ان پہاڑوں میں جہاں آپ کے قدموں کے نشانات آپ کی سچائی کی گواہی دے رہے ہیں، آج بھی آپ کی دی ہوئی شعور ہمارے ساتھ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔