آئیں اپنے اندر جھانکتے ہیں – عبدالواجد بلوچ

621

آئیں اپنے اندر جھانکتے ہیں

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

 آج ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے؟ ایک حشر برپا ہے پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں.  ہم اپنے حوالے سے بہت کم غور کرتے ہیں لیکن ہمیں دوسروں کی بڑی فکر ہوتی ہے، نظر سب سے پہلے اپنے عیبوں پر پڑنی چاہئے، اپنی بہت ساری کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود اپنے آپ کو پاک صاف اور بے عیب سمجھنا کتنا بڑا دھوکا ہے کبھی یہ سوچا ہے؟

اپنے آپ کو ہر غلطی سے پاک خیال کرنا ایک بہت بڑی روحانی بیماری ہے. اگر کبھی کبھار اپنے گریبان میں بھی جھانک لیا جائے تو کتنا اچھا ہو، اپنی حقیقت اپنی اصلیت پر بھی غور کر لیا جائے تو شاید دوسرے کچھ بہتر نظر آئیں، ذرا سا مقام ومرتبہ مل جانے پر لوگ اپنی حقیقت بھول جاتے ہیں. یہ وہ بیماریاں اور مسائل ہیں جس سے آج ہماری یعنی بلوچ قومی تحریک کے اندر مسائل پیچیدہ ہیں. سیاست کی بات کریں یا اس پر لکھنے والوں کے قلم کی تیراکی پر بات کی جائے کسی نے کوشش ہی نہیں کہ وہ مسائل کی نشاندہی کریں، کیا یہ سچ نہیں کہ ہم بِک چکے ہیں یا ہمارا قلم بک گیا ہے؟ کیا بھلا قلم کوئی بیچنے کی چیز ہے؟

ہاں یہ سچ ہے اگر میں یہ کہوں تو میں مارا جاؤں، گالیاں دیا جاؤں یا رد انقلابی کہلاؤں لیکن یہ سچ ہے کہ کل یہاں رنڈیاں بکتی تھیں، بعد میں اک زمانہ آیا یہاں تعلیم بکتی گئی اور ہاں آج یہاں قلم بک رہا ہے. اپنی اصلیت اور مقام کو جاننے کیلئے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانا کتنا ضروری ہے، اپنی اصلیت کو یاد رکھنا ہی اصل دانش مندی ہے اور آج ہمیں اُس دانشمندی کی ضرورت ہے، لکھوں اُن مسائل پر جن کی بنیاد پر بلوچ قومی تحریک مسائل سے دوچار ہے،

گذشتہ پانچ سالوں سے مَیں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہا ہوں، کئیوں مرتبہ انسانیت کے چمپئن ادارہ UNO کا چکر لگا کیوں؟ وہ اس لئے کہ اک امید تھی کہ ہاں یہی وہ ادارہ ہے جو قوموں کو ان کے بنیادی حقوق دلاتا ہے لیکن جب تجربہ کیا، قریب سے دیکھا تو یہ احساس ہوا کہ یہاں قوموں کو ان کے حقوق نہیں بلکہ یہاں ان کی بولیاں لگائی جاتی ہیں پھر کیوں نا ہم اپنے قوت بازوو پر یقین رکھ کر اپنا بوجھ خود اٹھائیں.

مسائل کیا ہیں؟ وہ وجوہات کیا ہیں کہ ہمیں قریب آنے نہیں دیتے؟ نعرہ تو یہ خوب لگتا ہے کہ بغیرِ اتحاد و اتفاق کے کامیابی ممکن نہیں تو کیوں کر اس کے لئے محنت نہیں کی جاتی؟ گو کہ یہ بھی سچ ہے کہ اتحاد بغیر اصول و ضوابط کے نہیں بنتے تو کیوں وہ نظم و ضبط اور اصول ہمارے اندر آتے نہیں؟ کیا کسی نے سوال کیا ہے؟ کوئی ہے جو جستجو کرے؟ کیا بی این ایم کا کارکن یہ جرات رکھتا ہے کہ وہ کُھل کر بی این ایم کی قیادت سے سوال کرے؟ کیا بی آر پی نے اپنے کارکن کو یہ تربیت کا مرحلہ میسر کیا کہ کل ان کی قیادت قومی مفادات پر سودے بازی کرے تو اسے سوال کیا جائے گا؟ کیا ایف بی ایم کا ایک ورکر یہ سوچ سکتا ہے کہ ماسوائے حیربیار کے صرف دوسروں سے سوال کرنا ایک سیاسی و جمہوری عمل نہیں؟

اگر نہیں وہ کس طرح ہم سیاسی کارکن ٹہرے؟ کیا یہ سوال اپنی جگہ اٹل نہیں کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں کیونکر بلوچ قومی تحریک نے بین الاقوامی سطح پر خود کو نہیں منوایا اور کیوں نہیں منوایا؟ پھر سیاسی قیادت سے سوال کرنے پر ہم ہچکچاتے کیوں؟ میں یہاں کہونگا کہ ہم ایک بڑی بھیانک غلطی کررہے ہیں کہ سیاسی کارکن کو زہنی طور پر مفلوج کرکے چھوڑ دیا گیا تو جب اسے شعور آئی تو جب ایسا صورت حال آن پہنچا تو آپ چیختے جائیں گے کہ ایسا نا کیا جائے. سیاسی کارکن اور سیاسی معاملات کو اس طرح بے سروسامانی پر چھوڑ جائیں گے تو تباہی ممکن ہی ہوگا.

گذشتہ پندرہ سالوں سے صرف یہی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں احتساب اور حساب کتاب کے مروجہ معاملات پر عملدرآمد کرتے خود کوئی نہیں دیکھ سکتا، اس لئے وہ چند وجوہات ہیں کہ ہم ہمیشہ دوسروں کو میار بار اور گناہ گارسمجھتے ہیں، مسائل حل ہونگے ناممکنات میں کوئی چیز ٹک نہیں سکتا اس لئے یہ ضروری ہے کہ آج ہی اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کریں جھانکیں انتہائی شدید طریقے سے کہ کوتاہیاں ہم سے نہیں ہورہی؟ اور ہم چیخ رہے ہیں دوسروں پر کہ وہ غلط ہوگا؟

جب بھی سوچ لیا تب یہ جان لینا کہ ہم کامیابیاں تب حاصل کرینگے جب سوال خود سے ہوگا، تو مسائل پیچیدہ نہیں رہینگے فقط خود سے سوال کریں اپنے اندر خود جھانکیں، اگر موقع ملا تو انا کے موجود دیوہیکل مجسمے کو زمین بوس کریں تو کچھ آگے بڑھیں گے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں