کیا سیاسی عاصم کو بھی احتساب سے استثنیٰ قرار دیا جاتا؟
تحریر: رضوان عبد الرحمٰن عبد اللہ
دی بلوچستان پوسٹ
فرض کرتے ہیں احمد نورانی کی شائع کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں اہلیہ ، بیٹوں اور بھائیوں کے سینکڑوں کاروباری کمپنیوں اور جائیدادوں سے متنازع بننے والے عاصم کے نام کے آگے “جنرل” کا لاحقہ نا لگا ہوتا، تو کیا تب بھی یہ شخص احتساب کے عمل سے بالاتر ہوتا؟
ویسے تو فرض کئے گئے اس عاصم کا تعلق زندگی کے کسی شعبے سے ہوتا تو یقینا موصوف کے لئے حالات ’’خوشگوار‘‘ نا ہوتے، لیکن ازرہ تکلف ہم مبینہ اربوں روپے کے اثاثوں سے زبان زد بننے والے عاصم کو ایک ’’کل وقتی‘‘ سیاسی شخصیت تصور کرتے ہیں اور پھر کی گئی اس معمولی ’’ردوبدل‘‘ پر کچھ سوالات رکھ کر ملک میں رائج احتسابی نظام کی ’’وقعت‘‘ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیا اس سیاسی عاصم کے مبینہ اثاثوں کی تفصیلات افشاں کرنے والے صحافی کے تانے بانے ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی سے جوڑ کر، اس کا تعارف ملک، ریاست اور اداروں کے خلاف کام کرنے والے کے طور پر کرایا جاتا؟ یا اس دوران کوئی سرکاری آفسر اپنے ’’ سیاحتی ایڈونچر ‘‘ کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتا؟
کیا سوشل میڈیا پر بھی سیاستدان عاصم کے احتساب کے مطالبات والے تمام ٹرینڈز غداروں اور بھارتی ایجنٹوں کی اختراع قرار دے کر اس کو ملک کے خلاف ایک پروپیگنڈا تصور کیا جاتا؟
کیا بات بہ بات غُل وغوغاں کے عادی اینکروں، تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی تحقیقاتی آنکھیں عاصم نامی اس سیاستدان کے ’’کرتوت‘‘ پر چندھیا پاتیں؟ یا یہ سیاسی شخصیت اتنی خوش قسمت ہوتی کہ جانے مانے ٹالک شوز میں اس کے حضور سہمے سہمے سوالات رکھ کر ان کے جوابات پر’’صدقے‘‘ واری جانے جیسے غیر فطری مناظر ناظرین کو دیکھنے کو ملتے؟
کیا سیاست سے جڑے عاصم کا دیا گیا تردیدی بیان تمام نیوز چینلز پر’’خامیوں‘‘ سے پاک نظر آتا؟ اور ٹی وی چینلز سیاسی عاصم کے ’’برحق‘‘ ہونے کی دہائیاں دیتے نظر آتے؟
کیا نیب سیاسی عاصم پر لگے اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات سے کنی کتراتا دیکھائی دیتا؟ کیا سیاسی عاصم کو بھی شواہد اکھٹے کرنے کے غرض سے حراست میں لینے کے عمل کو ناممکنات میں تصور کیا جاتا؟
کیا برسوں برس قوم کو کرپشن کے مضر اثرات سے ازبر کرانے والے وزیراعظم سیاستدان عاصم کا استعفی مانگنے کی بجائے ’’پیسہ ان کے باپ کا‘‘ قرار دیتے دکھائی دیتے؟
کیا کابینہ کے ایجنڈے بھی سیاستدان عاصم کے “احوال” سے خالی ہوتے ؟ اور وزرا اور مشرا کی زبانوں پر اس عاصم کے “اعمال” کے بند بندھے دیکھائی دیتے؟
کیا حریف سیاستدانوں کا رویہ سیاسی عاصم کے لئے ’’مصلحانہ‘‘ ہوتا؟ اور طویل عرصے کی خاموشی کے بعد جن ’’اکا دکا‘‘ کی زبان کھولتی، اس کے پیچھے کا کار فرما جذبہ ’’کھونے کے لئے کچھ نا ہونا ہونے‘‘ کا نا ہوتا؟
کیا عدالتیں سیاستدان عاصم کے کیس میں بھی ’’احتیاط‘‘ کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتیں؟ اور ادارہ سیاسی عاصم پر اپنی ’’پرفارمنس‘‘ دیکھانے کے لئے ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم جیسے جواز نا ڈھونڈ پاتیں؟
کیا معاشرے کا باشعور طبقہ کہلانے والی سول سوسائٹی میدان سیاست کے اس عاصم کے خلاف احتساب کے مطالبات والے بینرز اور پوسٹرز آٹھا کر سڑکوں پر آنے سے ہچکچاتیں؟
قائداعظم ؒ کے دستور ساز اسمبلی کے پہلے پالیسی خطاب سے لیکر حالیہ وزیراعظم کے آخری خطاب کو سنیں تو یہ سب رہنما کرپشن کی لعنت سے قوم کو نجات دلانے کا تہیہ تو کرتے نظر آئیں گے، پر یہ ممکن کیسے ہوگا جب ’’غیر سیاسی عاصم‘‘ جیسے لوگوں کو جوابدہ ہی نا سمجھا جاتا ہو؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔