وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4103 دن مکمل ہوگئے۔ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماوں اور کارکنان نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستانی بالادست طبقے کا بلوچ قوم خلاف گہری نفرت اور عداوت کو بھی آشکار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا بلوچ قوم کی بیرونی و استعماری قوتوں کی محکومی و بالادستی سے قومی تحریک کی جدوجہد کی تاریخ دو سو سالوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اتنی طویل جدوجہد کی مثال آئرلینڈ سمیت چند محکوم اقوام، خطوں میں نظر آتی ہے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدوجہد کو قوم کے دل دماغ سے مٹانے میں ناکام رہی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ سرزمین پر قابض قوتیں جبر و استبداد کی تاریخ کو پہلے سے کہیں زیادہ درندگی کے ساتھ دہرا رہی ہے۔ بلوچ فرزندوں کی قتل و غارتگری اور قید و تشدد کی سامراجی روایات اگر چہ نئی نہیں ہیں تاہم اس بار یہ گھناؤنی روایات درندگی حیوانیت کے تمام حدیں پار کرچکی ہیں۔بلوچوں کو کچلنے کی پاکستانی فورسز اور ان کی خفیہ اداروں کی مہم بلوچ نسل کش کی مہم بن چکی ہے، اس نسل کشی مہم میں درندگی اور سفاکیت کی جو مثالیں قائم کی جاری ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی قوتیں نہ صرف بلوچستان کی سرزمین اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں بلکہ بلوچ قوم کو بھی ریڈ انڈینز یا قدیم آسٹریلوی باشندوں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دینے یا اُنہیں اپنی سرزمین سے بیدخل کرنے کی کوشش کرنے کے خواہش مند ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ایک قتل عام ہے۔ بلوچ وطن میں چمن بلوچ سے روز شگفتہ پھول توڑے، مسل دیئے جار ہے ہیں ۔ پاکستانی دوزخ کی بھٹی بلوچ کی لہو سے گرم ہے اور اس دھرتی ماتا کے فرزند دھکتی انگاروں پر لٹائے جارہے ہیں مگر آہ نہیں کرتے۔ ایسے دردناک قصے ہیں کہ دیومالائی اور اساطیری معلوم ہوتا ہیں کیوں کہ ان میں بے باکی ہے۔ سچائی ہے اور سچائی پر مرمٹنے کی پُر اثر درس بھی ہے۔