بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4091 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میر جان محمد بلیدی، عبدالغفار قمبرانی اور دیگر نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں بلوچ، پشتون اور سندھی نسل کشی نے ایک ایسی صورت اختیار کی ہے جس کا ہر نیا اظہار پہلے سے زیادہ بھیانک، نو آبادیاتی، جبر استبداد، وحشت اور بربریت پر مبنی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو انصاف دو کا مطالبہ نوآبادیاتی حاکموں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے امن پسند اور اعلیٰ آدرشوں پر یقین رکھنے والے انسانوں سے ہیں اس لیے ناصرف بلوچ قوم بلکہ ہر وہ آواز جو انسانی آزادی اور اس کے شرف اور وقار پر یقین رکھتی ہے وہ بھی انہی آدرشوں کے پیروکاروں میں سے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں سات دہائیوں سے جاری نسل کشی کے اس تسلسل کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ ان دلخراش واقعات نے دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ ایک طرف بلوچستان میں ریاستی بیانیے کے مقابل سیاسی بیانیہ رکھنے والے سیاسی، سماجی، ادبی کارکنوں، دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہے تو دوسری طرف ریاست اپنے ڈیتھ اسکواڈز کو بلوچ عوام میں خوف و ہراس پھیلانے اور عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے چکی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ اس ظلم و جبر کیخلاف آواز ایک ایسا شعلہ بن کر بھڑکا جس کے نتیجے میں اس کی گونج عالمی سرحدیں پار کرتے ہوئے پوری دنیا میں سنائی دی جارہی ہے۔