بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4095 دن مکمل ہوگئے۔ خاران سے زیبر احمد بلوچ، غلام دستگیر اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان میں وسیع پیمانے پر ہونے والی جبری گمشدگیوں پر صرف اس صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ یہاں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو جنگی جرائم قرار دیا جائے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر ریاستی اہلکاروں کی جانب سے ریاست کی اجازت، حمایت یا خاموش رضا مندی سے کسی کو گرفتار یا اغواء کیا جاتا ہے اور بعدازاں ان کے حراست سے انکار یا گمشدہ فرد کی حالت یا مقام کو چھپایا جاتا ہے جس کے سبب وہ فرد قانون کے تحفظ کے دائرہ کار سے باہر جاتا ہے، تو یہ کاروائی جبری گمشدگی کے زمرے میں آتی ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جبری گمشدگی کو انسانی وقار کے خلاف جرم قرار دے چکی ہے۔ پاکستان میں جبری گمشدگیاں حالیہ سالوں میں ایک ملک گیر مسئلہ بن چکی ہے۔ اگرچہ ایسے واقعات زیادہ تر بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں سامنے آتے ہیں تاہم گلگت بلتستان اور پنجاب بھی محفوظ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں تسلیم کیا ہے کہ باضابطہ تعزیرات پاکستان میں جبری گمشدگیوں کو ایک جرم قرار دیا جائے گا تاہم جبری گمشدگیوں کو ایک واضح اور علیحدہ جرم قرار دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
احتجاجی کیمپ میں موجود خاران کے علاقے مسکان قلات سے تعلق رکھنے والے سید شاہ حسین نے کہا کہ میرے کزن محمود شاہ اور حسن بلوچ کو 11 اگست 2014 پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھاپے کے دوران حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں عدالتیں، قوانین موجود ہیں، اس ملک کا ایک آئین ہے جس میں یہاں کے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا طریقہ کار موجود ہیں لیکن لوگوں کو آدھی رات کو ملک کے اداروں کے اہلکار اٹھاکر لیجاتے ہیں اور بعد میں ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں ملتی ہے۔
انہوں نے اپیل کی کہ اگر محمود شاہ اور حسن بلوچ سمیت کسی بھی شخص پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔