کوئٹہ: لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

144

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4116 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر شمع اسحاق بلوچ، خالدہ ایڈوکیٹ بلوچ، ماروش بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج دنیا بھر میں مروجہ جمہوری اصولوں اور قدروں کے عین مطابق ہے اور یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ پرامن جدوجہد کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست پزیرائی مل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انسانی حقوق کے پامالیوں کے باعث دنیا بھر میں نمایاں ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے ہیں اور جن کی بڑی تعداد کا تعلق بلوچستان سے ہیں چونکہ لاپتہ افراد کا معاملہ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی زمرے آتا ہے اس لیے ان کی وجہ سے پاکستان کی اندرون اور بیرون ممالک کی بدنامی اور رسواہی ہورہی ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سپریم کورٹ کے رائے میں اگر لاپتہ افراد میں سے کوئی شخص قصوروار ہے تو اس کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے، اسے عدالت میں پیش کیئے بغیر اذیتیوں سے گزارنا ملکی آئین اور قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مترادف ہے لیکن سپریم کورٹ کے بارہا متعلقہ اداروں کو لاپتہ افراد کو تلاش کرکے عدالت میں پیش کرنے کے احکامات پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں بلوچستان کی سب سے بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے جنکی بازیابی کے بغیر بلوچستان میں امن ناممکن ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ تاریخ کے دھارے کو بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے اس قسم کی غلطی 1971 میں ملکی اسٹبلشمنٹ نے کی تھی۔ انسانی حقوق سے متعلق پاکستان کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کی پابند کی جائے اور بلوچستان کے ضمن میں پاکستان اپنے جارحانہ پالیسیوں کو ترک کرکے وی بی ایم پی کے جائز مطالبات کو تسلیم کرے جو ملکی آئین اور قانون کے عین مطابق ہیں۔