کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4113 دن مکمل ہوگئے۔ سرمستانی قومی رابطہ تحریک کے مرکزی صدر غلام حسین مومن، صوبائی نائب صدر فضل خان بلوچ، سپریم کونسل ارباب برات خان اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ کے لاپتہ رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین، لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی جبر ظلم نے پرامن جدوجہد کو آنے والے نسلوں تک خود منتقل کردیا ہے شعوری آگاہی کے عمل کو سیاسی جماعتیں بھی آگے بڑھا رہی ہے اور ریاستی جبر نے میدان کو صاف کردیا ہے، اب جدوجہد یقیناً تعین کردہ منزل پر تیزی کے ساٹھ بڑھے گی۔
انہوں نے کہا فوجی آپریشن اپنی تپش کے ساتھ پورے بلوچستان میں جاری ہے۔ جبکہ فوج کی ایماء پر ڈیتھ اسکواڈز کی کاروائیاں بھی جاری ہے ان میں حنیف چمروک کا قتل اور پھر اس کے رشتہ داروں کے گھروں پر فائرنگ جیسے اعمال شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جبری لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے کئی پریس کانفرنسز کی کہ ان کے فرزندوں کو فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے اہلکار ان کے گھروں سے اٹھاکر لے گئے ہیں اور باقی بلوچ فرزندوں کی طرح ان کو بھی شہید کرنے کا خدشہ ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے انسانیت کے ہر دروازے پر دستگ دی مگر یہاں سب گھونگے اور اندھے، بہرے ہوچکے ہیں۔ لاپتہ افراد کو کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ریاستی جبر بلوچ وطن پر کسی نہ کسی صورت جاری ہے جو یقیناً ریاست کے لیے خود درد سر بنے گا۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ پوری قوم کو مل کر اس احتجاجی کیمپ کا حصہ بننا چاہیے تاکہ دنیا کی خوشی کو تھوڑا جاسکے۔