کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4106 دن مکمل ہوگئے۔ کراچی، ملیر سے فقیر بلوچ، عرض محمد، نور محمد اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ عصر حاضر کے مورخ کو اس حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑے گا کہ بلوچ قوم کی پرامن جدوجہد کے اثرات محض بلوچ قوم تک محدود نہیں رئینگے بلکہ ان میں اس خطے کے سیاست کے رخ تبدیل کرنے کا قدر مضمر ہے۔
انہوں نے کہا کہ رد انقلابی قوت اور ریاستی ٹکڑوں پر پلنے والے انسان کش جرائم پیشہ ڈیتھ اسکواڈز عناصر سے بلوچ اس لیے مرعوب نہیں ہورہا ہے کہ بلوچ یقینی طور پر جانتا ہے کہ تاریخ میں ایک باب ان ضمیر فروشوں کیلئے مختص ہوچکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم جہاں ریاستی بربریت کا شکار ہے وہاں آئے روز ان مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور جبری گمشدگیوں میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے اور مقبوضہ بلوچستان کی زمینی صورتحال سب کے سامنے عیاں ہے۔ فرزندان بلوچ کی لہو خاک وطن میں جذب ہوکر جدوجہد کے کرنوں کا باعث بن رہی ہے، ریاستی ظلم و جبر کا بڑی دیدہ دلیری سے مقابلہ کررہی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں عوام کیخلاف گھیرا تنگ کرنا حکومت کو سہارا دینے کی پالیسی کو تسلیم کروانے کا تسلسل ہے، پاکستانی فوج متاثرہ علاقوں کو محصور کرنے کیساتھ علاقائی گماشتوں کے ذریعے عوام کو تشدد کا نشانہ بناکر علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور کررہی ہے۔