کوئٹہ: بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

142

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4100 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار سے سیاسی اور سماجی کارکن موسیٰ خان بلوچ، عبدالوحید بلوچ، نور محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ قابض قوتیں محکوم غلام اقوام کو اپنے زیر قبضہ رکھنے کیلئے سب سے پہلے انہیں ذہنی طور پر غلام بنانے کی کوشش کرتی ہیں مگر جب کسی غلام سماج میں احساس غلامی اور اس سے نجات کا شعور وسعت اختیار کرجائے وہاں یہ حربے ناکام ہوجاتے ہیں اور اگلا مرحلہ طاقت کا بے رحمانہ استعمال کو آزمایا  جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے یہ امر خوش آئند ہے کہ بلوچ قوم اب ذہنی غلامی سے نکل چکی ہے اس لیے ریاست بلوچ قوم کی نسل کشی کو اپنی بقاء اور بالادستی کا آخری چارہ کار خیال کررہی ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ اس سلسلے میں ریاست بلوچ گدانوں دیہاتوں اور شہروں میں آئے روز فوجی کاروائیوں اور اس میں عام بلوچوں کو نشانہ بنانے کی صورت میں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ دوسرا طریقہ کار درندگی اور سفاکیت کی اپنی مثال آپ ہے، یہ حیوانی طریقہ اٹھاو، مارو اور پھینکو ہے جس کا سب سے زیادہ نشانہ ان بلوچ فرزندوں کو بنایا جارہا ہے جو نظریے اور قلم سے لیس ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ اس سفاکیت کا بدترین مظاہرہ سیاسی کارکنوں، طلباء، نوجوانوں، صحافیوں، اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت ہر عمر کے بلوچ فرزندوں کے اغواء نما گمشدگی کے بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔