پاکستان اور یہودیت و منافقت
تحریر: عبدالہادی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سامراجیت اب بھی وجود رکھتی ہے۔ خاص طور پر مشرقی وسطی میں کئی ایسے اقوام ملیں گے جن کو سامراجی مظالم سامراجی طرز عمل اور رجحانات کا سامنا ہے۔ جہاں جہاں مغربی بنائی ہوئی نام نہاد ریاستیں وجود رکھتی ہیں وہاں ضرور کسی قوم کو مظلوم و محکوم بنا کر دبایا جا رہا ہوتا ہے۔ سامراجی و نوآبادیاتی تاریخ میں ہمیں اکثر یہ ملتا ہے کہ سامراجی طاقتوں نے مختلف اقسام کے ناجائز حربے اور ہتھکنڈے اپنا کر مظلوم و محکوم اقوام کو دبا کر ان پر اپنی مظبوط تر مظبوط غصب جماتے اور سیاسی معاشی اور عسکری طورپر اپنی اجارہ داری قائم رکھتے تھے۔
اسلامی تاریخ میں بھی ہمیں یہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے سے یعنی ہجرت مدینہ سے قبل جب ہم وہاں کی صورتحال پر بات کریں تو مدینہ پر مکمل یہودیوں کی اجارہ داری تھی۔ انہیں بہت سے شعبوں اور کاموں میں مہارت حاصل تھی۔ وہ اس چیز سے پوری طرح باخبر تھے کہ اس معاشرے پر اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے معاشی مضبوطی اور برتری بہت ضروری ہے۔ لہٰذا، ان کے انداز فکر اور اس کے مطابق طرزعمل ایسی تھی کہ مدینہ کے حقیقی باشندوں کو کیسے بھی لوٹا جائے۔ ان پر ہر طرح کی استحصال اختیار کیا جائے۔ ان کو اپنا محتاج بنایا جائے کیونکہ یہودی ان کو جاہل، گنوار اور حقیر سمجھتے تھے۔ ایسے بہت سے ناجائز اور غیر منصفانہ طریقہ انہوں نے استعمال کئے تاکہ مدینہ (یژب) کے لوگوں کو دبائیں اور ان پر اپنی تسلط مظبوط کریں۔
ان کے علاوہ، وہ تمام غزوات جو اسلامی تاریخ میں ہمیں ملتے ہیں خواہ وہ کسی کے بھی خلاف لڑے گئے ہوں، ان میں سے ہر وہ غزوہ خود دشمن کی طرف سے شرانگیزی و زیادتی کے نتیجے میں پیش آئے تھے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی حفاظت اور دفاع کی طرف مناسب جوابی کاروائیاں کیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہر وہ غزوہ کے موقع پر مسلمانوں کو یہ تلقین فرمائی کہ “اللہ سے ڈرے رہنا، کسی بے گناہ کا خون نہ بہانا، کمزوروں عورتوں اور بچوں کو تکلیف نہ پہنچانا، لوٹ مار نہ مچانا، سایادار درختوں کو نہ کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچانا”۔ یہ تھی رسول اللہ کا مزاج اور انداز فکر۔ جبکہ یہودیوں اور مشرکین کے طرزعمل بالکل ان کے برعکس تھے۔ ہر اس چیز کی جو رسول اللہ تلقین کرتا تھا یہودی اس کے الٹا کرتے تھے۔ اب اس کیفیت کو اگر ہم یہاں اس نام نہاد اور غیر فطری ملک پاکستان کی صورتحال سے موازنہ دیں تو پاکستانی پنجابی فوج و قوم اور انتظامیہ مظلوم و محکوم اقوام و طبقوں کی طرف ان یہودیوں اور مشرکین کے طرزعمل اور انداز فکر کو اپناتا نظر آتا ہے۔
پاکستانی فوج اور ایجنسی ان سب شر انگیز اعمال کے مرتکب پیش نظر ہیں، یہاں جن کو رسول اللہ نے منع فرمایا تھا۔ جیسے کئی بے گناہوں کو قتل کرنا، بچوں اور عورتوں پر غیر اخلاقی رویے اور زیادتیاں کرنا اور لوگوں کے درخت و باغات کو جلانا ایسے بہت سے مثال آپ کو اس ریاست پاکستان کے ہاتھوں ہوتے ملے گی۔
علاوہ ازیں، اگر آپ ہجرت مدینہ سے قبل اور اس کے بعد میں صورتحال تفصیل سے پڑھیں یا مطالعہ کریں تو جو طرز و صورت یہودیوں و مشرکین نے مدینہ کے اصل باشندوں کے خلاف اختیار کئے تھے بالکل وہی طرزعمل، مزاج، نیز ہر صورت آپ کو پاکستانی پنجابی فوج و قوم کی جانب سے بلوچ، سندھی اور دوسرے مظلوم و محکوم طبقوں کے خلاف ہوتا دیکھو گے۔ اس کی ہر صورت بالکل انہی یہود و مشرکین کی سی ہے۔ اس کے برعکس بلوچ سندھی اور دوسرے مظلوم و محکوم اقوام جو اپنے قومی و آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، وہ جب یہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ اس یہودیانہ طرز کے پنجابی فوج و قوم نے ان پر مسلط کیا ہے یعنی اس کی شرانگیز و زیادتیوں کے نتیجے میں یہ جنگیں انہیں درپیش ہیں اور محض وہ اپنی، اپنے وسائل اور اپنے بنیادی انسانی حقوق اور زمین کے تحفظ و دفاع کےلئے لڑرہے ہیں، جیسے رسول اللہ نے کیا تھا تو اس غیر فطری اسٹیٹ والے اور کچھ ملا و اسلامی اسکالرز اسی یہودیوں کے انداز فکر اپنا کر آزادی و انصاف پسند جنگجوؤں و جہدکاروں کو غداری اور اینٹی اسٹیٹ کا لیبل لگا کر ناجائز اور غلط و گمراہ تصور کرتے ہیں۔
مزید براں، مندرجہ بالا کونسے وہ اقدام کونسی صورت اور کیفیت اسلامی طرز کا یا حقیقی مسلمانوں کے طرز و مزاج کے ہیں جو نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنا چکا ہے؟ ہر وہ قدم صورت و کیفیت جو انگریز اور یہودیوں کا رہا ہے ماضی میں وہ ضرور پاکستان کے ذریعے اپنایا جا رہا ہوتا ہے۔ بالکل انہی کے نقش قدم پر چلتا نظر آتا ہے پاکستان۔ کون کہتا ہے کہ انگریز اور یہودی محض اسرائیل اور مغرب میں وجود رکھتے ہیں۔ جب پاکستانی سامراج پنجابی فوج و قوم کا طرزعمل، انداز فکر، منافقت، مکاری، انتظام و ترتیب نیز ہر صورت و کیفیت انہی یہود اور انگریز کا ہو، غیر اسلامی اصول و ضابطے کا ہو وہ قوم کس جواز اور حق سے یہود کو غیر، منفرد، غلط و گمراہ اور دنیا پہ سامراجی صورت اختیار کرنے کے جرم کا مرتکب اور خود کو سیدھا مومن اور ایماندار تصور کرتا ہے جبکہ یہ قوم و ملک اندر سے خود یہود اور منافقین ہیں۔
رہی بات اس ملک کی ملاوں اور اسلامی اسکالرز کی جو متعلقہ کیفیات سے آشنا ہوکر بھی حق کی بات اور حقیقت کے انکشاف سے کتراتے اور اندیشہ محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض غالبا اس منافقت اور مکاری میں شامل ہوکر مختلف پروپیگنڈے رچا کر مظلوم و محکوم اقوام کے کھوکھلے لوگوں کو ورغلاتے اور ان کے ذہنوں پر مذہب کو طفیل بنا کر ان کے ذہنوں پر غالب آکے خراب کرتے ہیں۔ ایسے اشخاص کی مثال وہی ضرب المثال کی مانند ہوتی ہے کہ “بھیڑ کے لباس میں بھیڑیا”، یا ” بغل میں چاقو اور منہ میں اللہ اللہ”۔ اب ایسے اشخاص پر یقین رکھنے والوں اور پاکستانی سامراج و نوآباد پنجابی قوم کی بنائی ہوئی نظام اور حقیقت و بیان پر یقین رکھنے والوں کی بھی مثال اس طرح ہے کہ جو سامنے درخت پر بیٹھے ہوئے کوے کو بلبل کہتا ہے۔ بجائے خود حقیقت کا ادراک کرلیں وہ کسی اور کی بنائی ہوئی کھوکھلے اور غیر صادق حقیقت و بیان پر قائل اور مقبول نظر آتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔