وی بی ایم پی کے احتجاج کو 4115 دن ہوگئے

264

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4115 دن مکمل ہوگئے، خضدار کوشک سے محمد رمضان، عبدالغنی زہری اور خاران سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا۔

لاپتہ غلام فاروق کی بہن، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ اور بھتیجی ماہ زیب بلوچ اور بلال احمد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقع پر لاپتہ غلام فاروق کی بہن کا کہنا تھا کہ سریاب روڈ کوئٹہ کے رہائشی غلام فاروق ولد عبدالرسول کو 2 جون 2015 کو حیدر آباد سندھ سے لاپتہ کیا گیا جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گذشتہ پانچ سال کے عرصے سے احتجاج کررہے ہیں لیکن کوئی ہماری آواز کو نہیں سن رہا۔

احتجاجی کیمپ میں موجود ماجد بلوچ کے کزن ماہین بلوچ کا کہنا تھا کہ انہیں 31 مئی 2019 سے قلات میں واقع ان کے گھر سے لاپتہ کیا گیا۔

ماہین بلوچ نے کہا کہ ماجد بلوچ کی والدہ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماجد کو پاکستانی قوانین کے تحت عدالت میں پیش کیا جائے اور ان پر کیس چلانے کے بعد سزا اور جزاء کا فیصلہ کیا جائے اس طرح ہمارے پیاروں کو عقوبت خانوں میں بند کرنا کسی بھی لحاظ سے انصاف نہیں ہے۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو وہاں خوشیاں اور مسکراہٹیں لیکر طلوع ہوتا ہے مگر غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے اقوام کیلئے خوشیاں سطحی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھوک ہڑتالی کیمپ پاکستان کیلئے واضح پیغام ہے کہ جبر، گمشدگیاں، شہادتیں غلامی کو دوام نہیں دے سکتے بلکہ پرامن جدوجہد کے سفر کا حصہ ہیں لیکن شاید پاکستان کے حکمران اس سے بے خبر ہے کہ تشدد کبھی قوموں کو غلام نہیں بناسکتی بلکہ قوموں کو انسانی درجے تک پہنچانے کیلئے ایندھن کا کام کرتی ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی تمام سفاکیت، جبر و تشدد کے باوجود بھی بلوچ قوم میں جدوجہد کے جنون، جذبہ اور شعور کو زیر نہ کرسکی۔ بلوچ پرامن جدوجہد نے کیلئے شہیدوں کے لہو نے نہ صرف دنیا میں بلوچ کو متعارف کرایا بلکہ پاکستان کو بھی حواس باختہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ مضبوط ارادے ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت حتیٰ کہ موت بھی کسی کو اس کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا ہے۔