والد کا قتل اجتماعی سزاء کا تسلسل ہے – طیبہ بلوچ

451

والد کے قتل کے بعد چاچا کے گھر پر فائرنگ کی گئی، یہ فائرنگ ریاست نے اپنے آلہ کار ڈیتھ سکواڈز کے ذریعے کرائی گئی۔ والد کے قتل کو روز کا معمول سمجھا گیا لیکن ہمارے لیے یہ غیرمعمولی واقعہ تھا – طیبہ بلوچ

انسانی حقوق کی کارکن طیبہ بلوچ نے کہا ہے کہ والد کے قتل کے بعد بھی ریاستی عناصر کی طرف سے دھمکی دی جارہی ہے، اگر مجھے یا میرے خاندان کے کسی فرد کو جانی یا مالی نقصان پہنچا ذمہ دار ریاست پاکستان ہے۔ بلوچستان کی سیاسی آوازیں ختم کی جاچکی ہیں اور جدوجہد سے وابستہ لوگوں کے خاندان اجتماعی سزاء کا نشانہ بن رہے ہیں۔ میرے آواز اٹھانے پر مجھے بھی ایسی سزا دی گئی کہ اسے بھولنا اور جھیلنا دونوں مشکل ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کو پاکستان پر انسانی حقوق کی پاسداری اور آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار طیبہ بلوچ نے اپنی بہنوں اور انسانی حقوق کے رہنماء غنی پرواز کے ہمراہ تربت میں ایک پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کی۔

انہوں نے اپنے سرگرمیوں کے پس منظر میں بتایا کہ میں 2018 سے انسانی حقوق کے کارکن کی حیثیت سے کام کررہی ہوں۔آپ سب بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان ایک انسانی المیے سے دوچار ہے یہ انسانی المیہ قدرتی یا حادثاتی نہیں بلکہ بلوچ قوم ریاست کے ہاتھوں نسل کشی سے دوچار ہے اس نسل کشی سے کوئی طبقہ محفوظ نہیں، سیاسی آواز ختم کئے جاچکے ہیں، جو لوگ جدوجہد سے وابستہ ہیں ان کے خاندان اجتماعی سزا کانشانہ بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ میرے سرزمین پر، میری آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہورہا تھا میں نے کسی سیاسی تنظیم کی بجائے بی ایچ آر او جوائن کی تاکہ ریاستی بربریت سے دوچار لوگوں کے اور لاپتا افراد کے لیے کام کرسکوں، سڑکوں پر چیختی، چلاتی ماں بہنوں کی آواز بن سکوں۔

طیبہ بلوچ نے کہا کہ شائد میری ایک خاتون ہونے کے ناطے ریاست نے مجھ پر تو ہاتھ نہیں ڈالا لیکن میری ہیومن رائٹس سرگرمیوں کی سزاء میری خاندان کو دینے کا فیصلہ کرلیا، میرا خاندان فوج اور اس کے مقامی آلہ کار ڈیتھ سکواڈ کے اجتماعی سزاء کا خاص نشانہ بن گیا۔ انہوں نے میرے شہید والد اور میرے دیگر عزیز و اقارب پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ طیبہ کو سرگرمی سے روکیں۔ میرے خاندان کواس حدتک مجبور کیا گیا کہ میرے والد نے ایک دن مجھ سے کہہ دیا ”طیبہ اب بس کریں۔“

انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے خاندان کی مجبوریوں اور ریاست کے دباؤ کا ادراک تھا لیکن مجھے غلام بلوچ کی ایک بیٹی کی حیثیت سے اپنی فرض کا بھی احساس تھا لاپتا افراد کے لواحقین کے آنسوں مجھ سے دیکھے نہیں جاسکتے تھے، میں نے وہ راستہ چن لیا جس پر میرا ضمیر اور میری روح نے مطمئن تھے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے میرے خاندان سے رابطہ کم کرنا پڑا، کئی مہینوں تک گھروالوں کی دیدار تک نصیب نہ نہیں ہوتی تھی تاکہ میری سرگرمیوں کی وجہ خاندان پر ریاستی افتاد نہ پڑے۔ لیکن میری احتیاط کام نہ آئی، ریاست نے میرے خاندان پر دباؤ میں شدت پیدا کیا کہ کسی بھی قیمت پر طیبہ کی سرگرمیاں روک دیں یا انجام کے لیے تیار رہیں۔

طیبہ بلوچ نے کہا کہ میری سرگرمیاں جاری رہیں تو ریاست نے مجھ سے میرے والد چھین لی، میرے والد میری دنیا تھی، ہم بہن بھائیوں کا کل سرمایہ تھے لیکن ریاست نے حیات بلوچ اور دیگر ہزاروں بلوچوں کی طرح انہیں گولیوں سے بھون ڈالا، لیکن دنیا پر آسمان ٹوٹی نہ زمین ہل گئی، ہماری دنیا ہی اجاڑی گئی شائد ہولناک دکھ روز دیکھنے کی وجہ سے میرے والد کے قتل کو روز کا معمول سمجھا گیا لیکن ہمارے لیے یہ غیرمعمولی واقعہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں ریاست کے ہاتھوں انسانی حقوق کے پائمالیوں کے خلاف آواز اٹھارہی تھی۔ میں ان بچوں و بچیوں کے لیے آوازاٹھا رہی تھی جنہوں نے اپنے والد کی محض تصویر دیکھی ہے جو اس کے ماں یا بہن کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، جنہیں اپنے بابا کی شکل تک یاد نہیں مگر خود جوان ہوکر سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں، ان بچوں کو اکیلے چھوڑ دینا میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں ان بوڑھی ماؤں کے لیے آواز اٹھارہی تھی جن کے جوان بیٹے ان کی آنکھوں کے سامنے اٹھائے گئے لیکن ریاست انکاری ہے، ریاست بہری ہے تو اس بہری ریاست کے ایوانوں تک ان بوڑھی ماؤں، بہنوں، نیم بیوہ جوان خواتین کی آواز پہنچانے کے لیے میں سڑکوں پر چیخ رہی تھی، میری یہی چیخ ریاست پاکستان کے لیے ناقابل برداشت تھی اور انہوں نے اس چیخ کی ایسی سزاء دی کہ زندگی بھر اسے بھولنا اور جھیلنا دونوں مشکل ہے۔

طیبہ بلوچ نے انکشاف کیا کہ ریاست نے میرے والد کے قتل کے بعد بھی میرے خاندان کو نہیں بخشا، والد کے قتل کے بعد چاچا کے گھر پر فائرنگ کرائی، یہ فائرنگ ریاست نے اپنے آلہ کار ڈیتھ سکواڈز کے ذریعے کرائی، یہ وہی لوگ ہیں جو روز فوج کی دھمکیاں میرے بابا کو پہنچاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں زیادہ تر شال میں رہتی تھی لیکن میری بہنیں کیچ میں ہیں، میری بابا لاپتہ نہیں بلکہ قتل ہوچکے ہیں لیکن میری بہنیں مغرب کے بعد دروازے پر انتظار میں بیٹھ جاتی ہیں کہ کسی وقت بابا آجائے گا اس سے ہم اور آپ ان ہزاروں بہنوں کی انتظار کی شدت کا اندازہ کرسکتے ہیں جن کے بھائی زندانوں میں قید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد کے قتل کے بعد ریاست کی دھمکی اور بربریت میں کمی نہیں آئی ہے۔ میری آج کی پریس کانفرنس کا مقصد آپ لوگوں، ہیومن رائٹس آرگنائزیشن، عالمی اداروں سے اپیل کرنا ہے کہ آپ ریاست کو عالمی قوانین کی پابند بنائیں کہ پاکستان پرامن آواز سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں کو سنے، انہیں اپنی مافی الضمیر بیان کرنے کا موقع دیں، لاپتا لوگوں کو بازیاب کرے۔ اور مجھے یا میرے خاندان کے کسی بھی فرد کو جانی یا مالی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار ریاست پاکستان ہے۔

خیال رہے حنیف چمروک گذشتہ جمعرات کی رات دس بجے کے قریب فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جب وہ اپنے میوزک کلب کے سامنے بیٹھے تھے۔ حنیف چمروک انسانی حقوق کی رہنماء طیبہ بلوچ کے والد تھے۔