نوجوان گوریلا ہیرو شہید عرفان جان – الف الماس بلوچ

1011

نوجوان گوریلا ہیرو شہید عرفان جان

تحریر: الف الماس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گواہی دینگے وہ چٹّان جسے آپ نے اپنے لہو سے رنگ دیا، اور وہ پہاڑوں کی گونج سے گرجتی گولیاں جسے آپ نے دُشمن کو للکارتے اور ہنستے ہوئے چلائیں تھی۔

گواہی دینگے ہر ندی اور جنگلات جس میں آپ نے اپنا سر رکھ کر اُس کو یہ یقین دلایا کہ ایک نہ ایک دن اس جنگلات پر روشنی کی کرن واپس لوٹ کر آئے گی اور ہر شاخ پر پرندے اپنے اپنے ہی گُھن میں اپنی سُریلی آواز میں چار چاند لگا دینگے۔ اور گواہی دے گی ہر وہ بلوچ جو آزادی کی سفر میں رواں دواں اور آزادی کی تمنا دل میں لیے ایک روشن مستقبل جس میں انسانیت، بلوچ قومی بقاء، کلچر و ثقافت اور آنے والا نسل ایک باوقار زندگی ایک آزاد فضا میں گزار سکے، کہ کیسے دو بلوچ نوجوان سرمچاروں نے پاکستانی ریاست اور اس کی بڑی فورسز کیساتھ مقابلہ کرتے ہوئے پندرہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک و زخمی کرکے یہ پیغام پہنچایا کہ سرزمین بلوچ میں اب بھی ایسے گوریلہ جانثار موجود ہیں جو پاکستانی بلوچ دُشمن پالیسیوں کو ناکام بنانے کیلئے دُنیا کی حسین ترین چیز اپنی جان کو بغیر ہچکچاہٹ قربان کرنے کیلئے ہر وقت کسی بھی جگہ تیار ہیں۔

شہید اِمداد بلوچ کی بہادری اور بلوچ قومی تحریک سے لگن، مخلصی کی کوئی نظیر نہیں ملتی، وہ سرزمین کا ایک سچّا عاشق تھا، وہ ہر اُس شے سے محبت کرتا تھا جس کی وابستگی بلوچ سرزمین سے تھی، وہ ایک پُر اعتماد اور باصلاحیت گوریلہ تھا جس نے کبھی بھی تھکاوٹ اور مایوسی جیسی شے کو اپنے قریب آنے ہی نہیں دیا۔ اُسے یہ یقین کامل تھا کہ جُہد مسلسل اور دُشمن پر پے در پے وار کرنے سے ہی اخلاقیات اور جنگی قوانین سے عاری پاکستان جیسی غیر فطری ریاست کی غلامی سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے، سائجی دڑامب سے لیکر زامران، کُلبر، مزن بند اور شے راز سمیت مکران میں ایسا کوئی کوچگ و بیابان نہیں تھا جس میں اِس بلوچ نوجوان گوریلہ نے دُشمن کو ذہنی کوفت میں مُبتلا نہ کیا ہو، اُس کی بہادری اور سخت محنت کو دیکھ کر دوستوں نے اُس کے لیے وہ مورچہ چُنا جہاں سینئرز کو بٹھایا جاتا تھا۔ جہاں پر کبھی وار پلٹ کر ہوشیاری و چالاکی سے جنگ کو اپنے حق میں واپس لایا جاتا تھا اور دوسرے مورچوں میں بیٹھے ساتھیوں کو باحفاظت نکالنا ہوتا تھا۔

کچھ سال پہلے جب سرمچار قابض لشکر کے گھیرے میں آ گئے تو اُس گشت میں شہید عرفان بلوچ بھی شامل تھا جہاں پر اُس نے دوستوں کو گھیرے سے نکالنے کیلئے مرکزی کردار ادا کیا اُس نے اپنے حواس کو کھونے نہیں دیا تھا بلکہ دانشمندی سے دُشمن کی جنگی چال کو سمجھتے ہوئے اُس کو کاونٹر کرکے ناکام بنایا، دشت پیٹوک کے مقام پر ایک دن شہید عرفان جان اپنے ایک اور ساتھی سرمچار کو لے کر دُشمن کے بنائے ہوئے مورچے پر پہلے آ کر بیٹھ گئے (جہاں روزانہ اسی مورچے پر سیکورٹی اہلکاروں کو بھٹایا جاتا تھا تاکہ تربت سے دشت کی جانب رواں فوجی قافلوں پر حملہ نہ ہو) جب اہلکار مورچوں کی طرف بڑے تو وہاں پر موت ایک بہادر سرمچار کی شکل میں اُن کا انتظار کررہا تھا، شہید اور اُس کے ساتھی سرمچار نے اُن پر کامیابی سے حملہ کرکے اُن کے بندوق بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسی کئی صلاحیتوں کا وہ مالک تھا، اُس کے پاس پاکستانی مُسلط کردہ سامراجی نظامِ تعلیم کی ڈگری تو نہیں تھی لیکن وہ غیررسمی تعلیم سے سر شار اور دس سالوں کا انمول گوریلہ جنگ کا بے مثال تجربہ رکھتا تھا، اُس کے پاس بلوچیت تھی وہ ہر اُس درد کو محسوس کرتا تھا جو ظالم پاکستانی فوج ہر روز مظلوم نہتے بلوچ ماؤں، بہنوں، اور بُزرگوں پر پچھلے کئی سالوں سے کرتا آ رہا ہے۔

جب 2013 میں سامراجی مُسلط کردہ نام نہاد عام انتخابات کی مکمل ناکامی اور شکست نے دُشمن آرمی نے اپنی درندگی اور جارحیت کا رُخ بلوچ آبادیوں پر کیا تو بڑی تعداد میں گھروں کو جلانے کا سلسلہ شروع کیا تو شہید عرفان جان کے والد صاحب واجہ غلام مُصطفی بلوچ اُس دوران اپنے کھیتوں میں تھا جب فوج کونشقلات میں گھروں کو جلانے اور لوٹنے کے بعد کیھتوں میں داخلہ ہوا تو واجہ غلام مصطفٰی نے جس کے پاس ایک بندوق(پسٹل) تھا دُشمن کے ساتھ مزاحمت کرتے ہوئے جام شہید نوش کی۔ شاید دُشمن نے یہ سوچا تھا کہ اُس نے ایک بلوچ باگی کمزور کردیا تھا لیکن منظر اس کے برعکس تھے، شہید عرفان جان کمزور نہیں ہوئے اور کسی کو یہ احساس نہ ہونے دیا کہ دُشمن نے اُس کے والد صاحب کو شہید کردیا ہے، بہت سے دوستوں نے یہ محسوس نہیں کیا کیونکہ اُس کے چہرے پر پہلے جیسے تاثرات تھے اُس لمحے نہ وہ غمزدہ تھا اور نہ ہی ٹوٹ گیا تھا، وہ اتنا مضبوط تھا کہ کوئی بھی حالات و واقعات اور نہ ہی کوئی ایسی غیر یقینی صورتحال اُس کے راہ میں رکاوٹ اور اُس کے نظریہ کو کمزور کر سکتا تھا، اُس کو باقاعدہ یہ علم تھا کہ آزادی کی تحریکوں میں انسانی جانوں کی قربانیاں اوّلین شرائط میں سے ایک ہوتی ہے، جس کیلئے آزادی کے متوالوں کو ہمیشہ ڈہنی طور پر تیار اور آمادہ ہونا چاہیئے۔

آزادی کی تحریکوں اور گوریلا وارز میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جہاں پر عرفان جان جیسی ہستیاں دُشمن کو اِتنا مجبور کردیتی ہیں کہ وہ اپنی تمام اِنرجی صرف کرتے ہوئے ایک سرزمین کے سچّے وارث کو جسمانی طور پر مظلوموں سے جُدا کرے لیکن دشمن لاکھ حربوں کے باوجود اُس کا فکر و نظریہ زندہ رہے گا اور آنے والی نسلوں کیلئے ایک مشعل راہ ہوگا۔ مظلوم قومیں اپنی بہادر اور جانثار ثپوتوں پر فخر کرتے ہیں اور میں بھی ایک مظلوم بلوچ ہونے کے ناطے شہید عرفان جان کی بہادری پر فکر محسوس کرتا ہوں۔ بلوچ تحریک آزادی کے سفر میں اسے ایک قومی ہیرو کی طرح یاد کیا جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔