نواز شریف کے خطاب کے تناظر میں
تحریر: شئے رحمت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان ایک بار پھر سے ، ظالموں اور دوغلے ، نام نہاد سیاستدانوں کے نظر میں ہے ، سوال آتا ہے کہ بلوچستان ہی کیوں ہر بار شکار ہوتا ہے؟ سوال آتا ہے کہ بلوچ قوم کیوں شکار بن جاتا ، بلوچ قوم اسی لئے شکار بن جاتا ہے ، کیونکہ بلوچستان میں ہر طرح کے مسائل درپیش ہیں چاہے وہ تعلیم کا مسئلہ ہو یا سہولیات یا منشیات کا مسئلہ ہو ، بلوچستان میں ہر قسم کے مسائل درپیش ہیں ، سب سے بڑا مسئلہ بلوچ نسلی کشی کا ہے ، بلوچ قوم ہر وقت اس ظلم وستم کا شکار ہوا ہے ، بلوچستان کے معصوم لوگوں کو گرفتار کرکے ، ان کو غائب کرنا ، ان کے مسخ شدہ لاشیں ، پھینکنا ، لاش ایسے ویرانے میں پھینکنا کہ وہاں انسانوں کا نام اور نشان نہیں ، بلوچ قوم کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک ہر وقت ہوتا رہا ہے۔
اتنے ظلم اور ستم کے باوجود بھی ، بلوچ قوم اپنے قاتلوں کے ، دوکھےبازیوں ، اور ان کی جھوٹ پر یقین کیوں کرتا ہے ، کیونکہ بلوچ قوم غلام ہے ، غلام قوم پر ہر چیز اثر کرتا ہے ، اگر واقعی میں بلوچستان میں ہر شخص ،جو کہ پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا ہے، وہ بلوچ قوم کا ہمدرد ہے ، تو انکی سرکار کیوں بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے ، کوئی بھی ان پر کسی جگہ بات نہیں کرتا ، کیوں مسنگ پرسنز کے حق میں کچھ نہیں بولتا ، بلوچستان میں ، ڈنک جیسے ہزاروں واقعات ہوئے ہیں ، ان پر کیوں کوئی نظر نہیں ڈالتا ، کیا سب اندھے ہیں؟ آج مریم نواز آکر کہہ رہی ہے کہ ہم مسنگ پرسنز کے ہمدرد ہیں ، ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہزاروں بے گناہ ، نواز شریف کے دور حکومت میں فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے ، ہزاروں مسنز نواز شریف کے دور میں ہوئے ، آپ یہ کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
نواز شریف کا خطاب ، جو کے بی بی سی ، اردو فیسبک پیج پر آیا تھا ، وہ سن کر مجھے بہت ہی عجیب محسوس ہوا ، میں حیران ہوگیا ، کہ یہ کیا بیاں کرنا چاہتا ہے ، بلوچستان کے مسئلوں سے پہلے ، ( ووٹ کو عزت دو ) کا اظہار کرتا ہے ، کیونکہ ، ان کو بلوچ قوم سے ہمدردی بلکل بھی نہیں ، ان کو ہمدردی اپنے مقصد سے ہے ، ان کو ہمدردی اپنے ووٹ سے ہے ، وہ کہتا ہے کہ ملک بھر کے عوام اپنے تقدیر بدلنے کےلئے اٹھ کھڑے ہوں ، اگر واقعی میں ووٹ کو عزت دینے سے تقدیر بدل جاتے میرے خیال سے ، پاکستان بھرکے عوام آسمان کو چھو رہے ہوتے ، وہ ایسے بات کر رہے ہیں جیسے کہ کوئی انکے کارناموں سے انجان ہیں، جیسے کسی کو پتہ نہیں کہ وہ چور ، دلار ، مکار ، قاتل ہیں۔
نواز شریف اپنے خطاب میں حاصل خان بیزنجو کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ،کہ حاصل خان کا جانا ، میرے لئے اور قوم کےلئے ایک نقصان ہے ، آپ کےلئے شاید نقصان ہو لیکن بلوچ قوم کےلیے ، ایک خوش قسمتی ہے کیونکہ ، وہ ایک قاتل تھے ، جو میران عزیز ، شفیق مینگل جیسے ، لوگوں کے ساتھ ، بلوچ نسل کُشی میں ساتھ تھے ، آپ کےلیے اسی لئے نقصان تھا کیونکہ ، وہ آپ کے اور پنجاب ریاست کے وفادار تھے ، اسی لیے نقصان تھا کیونکہ ، وہ بلوچ نسل کشی کے خلاف نہیں بولتا تھا ، آپ کے لئے اسی وجہ سے نقصان دہ ہے کہ آپ کو بلوچ نسل کشی میں مدد کرتے تھے ۔ یہ منافق لوگوں کا فطرت ہے کہ جو ان کے کام آئے ، چاہے جیسے بھی ہو ں، ان کو ایسے اوُنچے مقام دیتے ہیں ۔
اب بلوچ کو چاہئے کہ وہ اپنے دشمن کو پہچان لیں ، ابھی بھی اگر ہم اپنے دشمن کو پہچان نہ سکے تو ، اس سے زیادہ قتل ہوجائینگے ، اس سے بھی زیادہ لاپتہ کردیے جائنگے ، بس ایک لفظ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ان کو بلوچستان چاہئیے ، بلوچ قوم نہیں ، کیونکہ جب نواز شریف کا دور تھا ، اس وقت بھی بلوچ کی نسل کُشی کی جاتی تھی، یہی نواز شریف ، مریم نواز ، اس وقت کہاں تھے ؟ ابھی ان کو بلوچ قوم کی ضرورت پڑگئی ہے ، اسی لئے وہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں ، عمران خان اپنے دور حکومت سے پہلے کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ بلوچستان پر بہت ظلم اور ستم ہوا ہے ، لیکن آج وہ بات کیوں نہیں کرتے ؟ اسی لئے وہ بات نہیں کرتے کیونکہ انکا مقصد اب باقی نہیں رہا ، اسی طرح بلاول بھٹوکا بھی مقصد اپنے ووٹ تک ختم ہوجاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے ، پنجاب ریاست کو بھی پتہ ہے کہ بلوچستان ہمارا نہیں ہو سکتا ، وہ اسی لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل ، بلوچوں کا سرزمین کس طرح سے سودا کریں ، ہر شخص جس کے زبان پر اپنے حق کے الفاظ آتے ہیں ، وہ اٹھالیا جاتا ہے ، وہ ماردیا جاتا ہے ، ہم اس طرح کسی اور کے ریاست میں بھلا کیسے رہیں ؟ جہاں نہ ہمارے احتجاج کا نتیجہ ہو نہ ہماری آواز کوئی سُنے ، نہ ہمارا درد کوئی سمجھے ، غلام قوم کے مسئلوں کا حل اگر احتجاج میں ہوتا ، تو ، کردستان ، کیوبا ، ویتام ، فلسطین میں بندوق کی نہیں بلکہ احتجاج کے آواز بلند ہوتے ، بلوچ قوم کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اپنے دشمن کو پہچان لیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔