منشیات ایک خاموش قاتل قوم کی جڑیں کاٹ رہا ہے
تحریر: رحیم بلوچ مند
دی بلوچستان پوسٹ
منشیات ایک زہر قاتل ہے جس نے پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے- لیکن منشیات سے مکران زیادہ متاثر ہے تعلیم یافتہ سے لیکر چرواہے تک کوئی اسکی وار سے نہیں بچا ہے، مکران میں کوئی ایسا گھر نہیں جس میں منشیات استعمال کرنے والا کوئی بندہ نہ ہو بہت سے ایسے گھر ہیں وہاں ایک ہی گھر میں دو یا تین نوجوان نشے کے چنگل میں پھنس چکے ہیں اور والدین شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
والدین یہ سوچ کر اپنے بیٹے کو پالتے ہیں کہ وہ بڑا ہوکر ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا لیکن جب کوئی نشے کے دلدل میں پھنس جاتا ہے، سہارے کی جگہ درد سر بن جاتا ہے، بے روزگاری کی وجہ سے مکران میں لوگوں کی معاشی حالات اچھی نہیں، نشئی صبح اٹھ کر والدین سے پیسہ مانگتے ہیں نہ دینے کی صورت میں چوری کرتے ہیں-
ان منشیات کے عادی افراد کی وجہ سے چوری، ،قتل اور معاشرتی برائیاں ہورہی ہیں – روزانہ گھروں میں سلینڈر، موٹر اور دوسری اشیا چوری کر کے اپنا نشہ پورے کر لیتے ہیں – ایسے لاڈلے نوجوان جو سوتے وقت والدین دروازہ آہستہ آہستہ کھولتے تھے کہیں انکی نیند خراب نہ ہوجائے آج وہ رات کو پرانے کاریزات میں کسی درخت کے نیچے سو کر جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں-
دنیا میں کہیں بھی سماجی برائی کا روک تھام ریاست وقت کی زمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں اسکی روک تھام حکومت وقت کی ترجیحات میں شامل نہیں، جب حکومت اسکی روک تھام نہیں کرتا تو من حیث القوم ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسکی روک تھام کیلئے کوئی قدم اٹھائیں جلسہ ، جلوس،دھرنا، دیں-
بلیدہ کی باہمت عوام قبائلی عمائدین اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے جس طرح ہمت کرکے منشیات کو کنٹرول کیا اور منشیات کے عادی افراد کو علاج کر رہے ہیں- یہ پورے مکران کے لوگوں کیلئے ایک مثال ہے – مکران کے لوگ بلیدہ کی طرح اپنے علاقوں میں منشیات کے روک تھام کیلئے قدم اٹھائیں یا ایک ایک کرکے نوجوانوں کو دفناتے جائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔