ملتان میں بلوچ طلباء کا احتجاج اور حکومتی بے حسی
تحریر: ارشد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اُف یہ شورشرابا اور ٹریفک سے مجھے اتنا نفرت ہے جیسے ایک مذہبی فرقے کو دوسرے فرقے سے، اسرائیل کو فلسطین سے ،آقا کو غلاموں سے اور جام کمال کو تعلیم سے-
خیر چلیں میں کوئی رائٹر نہیں مگر یہ جام صاحب کی مہربانی ہے مجھے آج قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے جسکے لیۓ میں اُنکا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔
سوچنے کی ضرورت نہیں، میں جام صاحب کا زکر اس لیۓ کر رہاں ہوں کے موصوف نے ٹوئٹر پر بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اسکالرشپس کے مسئلے پر نوٹس لیا تھا جو کہ ۳۲ دنوں سے وہاں بلوچ طلباء سراپا احتجاج ہیں. ۳۲دن جی ہاں.! ۳۲ منٹ نہیں، ۳۲گھنٹے بھی نہیں، میں ۳۲دنوں کی بات کر رہاں ہوں.جن میں دن اور رات دونوں آجاتے ہیں.
جام صاحب ہم کونسل والے غیر سیاسی لوگ ہیں ہمیں کس کام کے پیچھے لگوا دیا ،خیر سیاسی اور غیر سیاسی بحث پر کبھی اور دن ،اب مُدؔعے پر آجاتے ہیں ، جناب.! بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایک سال ۱۸۰ بچے بلوچستان کے غریب گھرانے سے آکر یہاں علم کے زیور سے آراستہ ہوکر بلوچستان لوٹ جاتے ہیں؟ خیر تمہیں ان چیزوں کو جاننے کی کیا ضرورت نہیں ہے جو بدقسمتی سے پیدائشی نواب ٹہرے ، کہا تھا نا کوئی رائٹر نہیں ہوں اب برداشت بھی کرلو-
اچھا ۳۲دن ہم نے آج احتجاجی کیمپ میں مکمل کردۓ مگر مسئلہ وہیں کا وہیں اٹکا ہے، ۳۲دن میں کھلے آسمان سے برستی بارش کو بھی قریب سے دیکھا ،ملتان کی تپتی ہوئی دھوپ کو بھی برداشت کی. مگر شاید بھگت سنگھ نے صحیح کہا تھا کے “بہروں کو بس اونچی آوازیں سنائی دیتے ہیں”
بہرحال پچھلے دنوں بی ایم سی کے مسئلے سے ایک بات واضح ہوچکا ہے پرامن احتجاجی کیمپ سے بلوچ طلباء کے مسئلے کم از کم حل نہیں ہوسکتے، بلوچ طلباء کو اپنے مسائل کے حل کیلۓ ہمیشہ ایکٹریمسٹ پوزیشن لینا پڑیگا، انہیں اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنا پڑے گی پھر جا کر کچھ مطالبات مانے جاتے ہیں- ویسے آپ فخر نہ کریں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان بھی اپنے مطالبات منوانے کیلۓ کسی حد تک بھی جاسکتی ہے کیونکہ جو کام وزیر تعلیم نے کرنے تھے وہ موصوف کے اتنے زیادے مصروفیات ہیں کہ سونے کیلۓ بھی اسمبلی آجاتے ہیں خیر کس کس سے گلہ اور شکوہ کریں..
تعلیم دشمنوں سے گلہ تو مستقل ہے آئیں کچھ گلہ علم دوستوں سے بھی کریں کہ احتجاج میں بیٹھے طلباء کی آواز میں ہاں اس وقت ملاؤ گے جب وہ اپنی زندگیاں خطرے ہیں ڈالیں، بھوک ہڑتال کریں یا پھر لانگ مارچ. ۳۲دنوں سے احتجاجی کیمپ لگا کر جو طلباء بیٹھے ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مشکلات برداشت نہیں کررہے بلکہ بلوچ قوم کے مستقبل کے لئے کررہے ہیں. میں اپنے علم دوست اور سیاسی دوستوں کو باور دلانا چاہتا ہوں ملتان میں بیٹھے ہوۓ بلوچ طلباء اُتنا ہی بلوچ ہیں جتنے آپ ہیں ، انکے دل اتنا ہی بلوچستان کے ہر مسئلے پر دھڑکتا ہے جتنا آپکا ، بی ایم سی کا مسئلہ ہو یا بلوچستان یونیورسٹی کا، ملتان کے ان نوجوانوں کو اُتنا ہی سرگرم پایا جتنا باقی بلوچستان تھا. کوئٹہ میں ہوں یا بلوچستان بھر میں، یا پھر دیار غیر میں بلوچ طلباء جہاں رہے انکا درد و غم مشترکہ ہے لہذا آپ بھی اپنے نظرِکرم اس مسئلے کی طرف گھمائیں اور قلم کی نوک کو ٹوٹنے نہ دیں.
خیر کسی نے کیا خوب کہا تھا
“اُنہیں یہ ضِد ہے کہ چمن پہ مسلط رہے گی خزاں،
ہمیں یہ جنون ہے کہ بہار لاکے چُھوڑیں گے ۔”
آخر میں حاکم وقت سے گذارش ہے کہ ان بچوں کو سنا جاۓ اِسی میں بلوچستان اور بلوچ قوم کا بہتری ہے، اور قلم کو طاقت دیجئے. طلباء کو پڑھنے کے مواقع فراہم کریں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔