ماضی کی شرمناک شکست
تحریر: واحد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان اپنی تاریخ میں کوئی جنگ جیت نہ سکا ہے، بہرحال جیت کی کئی خوشیاں منائی گئیں۔ پاکستان نے اپنی چھوٹی سی تاریخ میں جن مسئلوں اور زمینی تنازعات کے لیے جنگ کی ہے وہ سارے مسئلے اب بھی پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان اپنی تاریخ میں غلط پالیسیوں کی وجہ سے اور آزاد ریاستوں پر جبری قبضہ گیری کے بعد آج بھی شکست سے دوچار ہے۔ موجودہ بلوچ، سندھی، پشتون اور دوسرے مظلوم قوموں کی تحریکوں سے ایک بار پھر مستقبل قریب میں پاکستان کو شرم ناک شکست سے دوچار ہونا ہے جس طرح بنگلہ دیش میں پاکستان کی تاریخی شرمناک شکست ہوئی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ شروع ہی سے زیادہ تر بنگالی قیام پاکستان کے ساتھ ہی جب انہوں نے اپنا استحصال دیکھا تو وہ پاکستان کے ساتھ خوش نہ تھے۔ کیونکہ انکا اپنا قوم تھا اپنی زبان تھی. لیکن انکو مذہب کے نام پر ورغلا کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا گیا اور اس قوم کا استحصال کیا. قیام پاکستان کے فورا بعد اکثریت حاصل ہونے کے باوجود جب بنگالیوں کا استحصال شروع ہوا تو تحریک نے جنم لیا. مغربی اور مشرقی پاکستان میں اختلاف کا آغاز زبان اور نسلی استحصال کی بنیاد پر شروع ہوا.
قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک ڈکٹیٹروں اور بیوروکریسی کے ہاتھوں چلی گئی. جس نے اپنی ملک کی وجود کے دوسرے برس جب بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کو سمجھ کر فوجی بربریت کی بنیاد پر جبری قبضہ گیری کے بعد غیر فطری ریاست پاکستان میں صوبوں کا استحصال شروع ہوا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والا شخص شیر بنگال فضل الحق جس نے 1940 میں قرارداد پاکستان پیش کی تھی اسکو غداری کا الزام لگا کر 659 ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا. کیونکہ وہ بنگلہ دیش میں بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دینے کی تحریک میں پیش پیش تھے۔
ان گرفتار بنگالیوں میں وہ شخص بھی شامل تھا جس کی کوششوں اور عوام کے حوصلوں نے بنگلہ دیش کو پاکستان جیسے غیر فطری ریاست سے آزاد کروایا. انہی گرفتار لوگوں میں شیخ مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے اور یہ اسکی آخری گرفتاری نہیں تھی. کیونکہ جنرل ایوب کے دور حکومت 1958 کو شیخ مجیب الرحمٰن پھر گرفتار ہوئے. جس کے بعد اس گرفتاری نے بنگلہ دیش کے حالات بدل دئیے اور شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے کام شروع کیا.
1963 میں حسین شہید کی وفات کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن عوامی لیگ کے صدر بن گئے جس سے پاکستان کے حالات بدل گئے. مغربی پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی کیونکہ مغربی پاکستان کے حکمران مجیب الرحمن کو غدار اور بنگالی قوم کو استحصالی نظروں سے دیکھتے تھے.
1966 میں جب بنگلہ دیش کے عوامی لیگ کا لیڈر شیخ مجیب مشرقی پاکستان کی زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے لیے تحریک چلا رہے تھے تو اس نے اپنے چھ نکاتی پروگرام پیش کئے جس کو ڈکٹیٹروں نے خطرہ اور آزادی کا نعرہ سمجھ کر رد کر دیا اور شیخ مجیب الرحمٰن پر غداری کا مقدمہ چلایا کیونکہ وہ فوجی آمریت کے خلاف تھا اور صوبائی خود مختاری چاہتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن جو پہلے سے جیل میں تھا ایوبی حکومت نے اگرتلہ سازش کیس میں پھنسا کر بہت سے دوسرے بنگالی آفیسروں سمیت باقاعدہ گرفتار کرلیا.
اگرتلہ سازش کیس میں 1968 کو بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں مجیب الرحمن سمیت 35 بنگالیوں پر مقدمہ چلایا گیا مگر ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو رہا کر دیا گیا. سچ تو یہ تھا کہ پاکستانی ڈکٹیٹر ایوب خان، شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکاتی پروگرام سے خوفزدہ تھے. اس لیے اس کو اگرتلہ کیس میں گرفتار کر کے بنگلہ دیش میں تحریک کو کچلنا چاہتا تھا.
23 سالوں سے بنگالی اپنی قومی حقوق کی تحفظ کرتے ہوئے جب 1970 کو جنرل یحی خان کے دور حکومت میں سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ختم ہو گئیں، تو شیخ مجیب الرحمٰن اپنے چھ نکاتی پروگرام کی بنیاد پر انتخابی مہم شروع کر رکھی تھی. جس سے ڈکٹیٹروں کو ملک ٹوٹنے کے خدشات تھے. کیونکہ اب بنگلہ دیش میں تحریک نے زور پکڑا تھا.
جب مجیب الرحمن انتخابی جلسے جلوسوں میں مصروف تھا تو مغربی پاکستان کے مخالف سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو غیر ملکی طاقتوں کی مالی اور عملی حمایت حاصل ہے. دوسری طرف مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اسلام کے نام پر انتخابی مہم چلا رہے تھے. جو مغربی پاکستانی عوام کے دل میں مشرقی عوام کے لئے نفرت کا بیج بو رہے تھے۔
اگر 1970 سے پہلے دہائیوں میں ہونے والے بنگلہ دیش کے تحریک پر نظر ڈالی جائے تو عوامی لیگ اور اس کے لیڈرز چھ نکاتی پروگرام کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں زیادہ اختیارات کی تحریک چلا رہے تھے اور بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دینا تھا. جب 1970 میں ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول پر پہلے جنرل الیکشن ہوئے تو شیخ مجیب کی واضح اکثریت کے باوجود حکومت شیخ مجیب الرحمٰن کو منتقل نہیں کیا گیا کیونکہ مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر نسلی اور زبانی بنیادوں پر مشرقی پاکستان کی حکومت تسلیم نہیں کرنا چاہیے تھے.
حکومت منتقلی میں تاخیر کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں ہنگامے شروع ہو گئے. دوسری طرف مغربی پاکستان میں مخالفین کی طرف سے عوامی لیگ کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے تھے. مشرقی پاکستان میں اتنے نا انصافیوں کے باوجود فروری 1971 کو وہاں فوجی آپریشن کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں. اسی سال یکم مارچ کو جب جنرل یحی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس ملتوی کر دیئے تو ڈھاکہ میں تحریک نے اور زور پکڑا. اب مظاہرے زوروں پر تھے کہ پاکستانی فوج نے مظلوم بنگالی قوم پر اپنی بربریت ظاہر کی اور جلوسوں پر فائرنگ کر کے ہزاروں بےگناہ بنگالی شہریوں کو شہید کیا. پاکستانی فوج کی بربریت دیکھ کر بنگالیوں نے تحریک عدم تعاون شروع کر دی جو پاکستان کے لیے سر درد بن گئی. اسی طرح بغاوتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اسطرح مشرقی پاکستان میں جنگ آزادی نے جنم لیا.
جب 25 اور 26 مارچ کو ڈھاکہ میں فوجی آپریشنز اپنے عروج پر تھیں تو مشرقی پاکستان میں جنگ آزادی نے زور پکڑ لیا جس کے نتیجے میں میں مشرقی پاکستان کے مشہور لیڈر مجیب الرحمن کو پھر گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا. جس کو بعد میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد رہا کیا گیا. مجیب الرحمن کی گرفتاری کے بعد ڈھاکہ میں ہنگامے اور بھی زیادہ بڑھ گئے تھے جس کے نتیجے میں پاکستانی فوج نے بے گناہ عام شہریوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں پر فائرنگ کر کے انکو ہلاک کیا. اب مشرقی پاکستان میں حالات آپے سے باہر ہو گئے تھے کیونکہ بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور پاکستان بار بار بھارت کی تعاون کا الزام بھی لگا رہا تھا۔
انہی کشیدگی کی وجہ سے سے پاک بھارت تعلقات خراب تر ہونے لگے جو تین دسمبر 1971 کو پاک بھارت جنگ کی شکل میں سامنے آیا۔ اب تین جگہوں پر جنگ جاری تھی۔ جس کا نتیجہ 26 مارچ 1971 کو بنگلہ دیش کی شکل میں سامنے آیا اور پھر پاکستانی فوج نے بھارت کے سامنے سرنڈر کے دستاویزات پر دستخط کئے اور اسی طرح پاکستانی فوج کے نوے ہزار سپاہی ہندوستان کے قیدی بنے.
ان پاکستانی فسادات سے بنگلہ دیش میں تین لاکھ سے زائد اموات ہوئے اور شہر کی آبادی کا بڑا حصہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے اور وحشی پاکستان فوج نے بنگلہ دیش میں دو لاکھ سے بھی زائد بنگالی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اکہتر کی جنگ میں پاک فوج نے بنگلہ دیش میں نسل کشی کی شرم سار تاریخ رقم کی تھی۔
آج اسی طرح بلوچستان میں بھی پاکستانی ملٹری فورسز نے بلوچ اور سروے مظلوم قوموں کی نسل کشی کی انتہا کر دی ہے۔
جس طرح اکہتر کی جنگ میں پاکستان کو عبرت ناک شکست نصیب ہوئی جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی شکل میں آج دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح مستقبل قریب میں بلوچ اور بلوچستان کے واسی پاکستان کو اس سے بھی بدتر عبرت ناک شکست سے دوچار کریں گے۔ اور اسکو اپنے حدود پنجاب تک محدود کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔