بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4104 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ وومن فورم کے آرگنائزر زین گل بلوچ، این ڈی پی کے ثناء بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ایک ایسی ریاست جہاں وردی اور غیر وردی والے بندوق بردار جب بھی چاہے کسی بھی ماں کی عصمت دری، کسی بھی گھر کی عزت کو تار تار کرسکتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا بھی نہیں، جہاں ڈکیت، گینگسٹرز، ڈرگ مافیا کے لوگ شرفا کہلائے جاتے ہوں اور پھر یہی لٹیرے عزت پاتے ہوں تو وہاں لاقانونیت ہی قانون کا دوسرا نام بن جاتا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں ماوں کی عزتیں تار تار ہورہی ہے، بلوچ معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماوں کو قتل کیا جارہا ہے مگر کوئی میڈیا، کوئی انسانی حقوق کا چیمپئن ان حقائق کو سامنے نہیں لاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں پر آواز اٹھانے والے کارکنان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں انسانی حقوق کے متحرک کارکن طیبہ بلوچ کے والد کو سرے عام قتل کیا گیا جبکہ قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طیبہ بلوچ کے والد کو ایک ایسے دن قتل کیا گیا جب بلوچستان کے سلیکٹڈ وزیراعلیٰ تربت میں موجود تھا، نام نہاد وزیراعلیٰ کے آمد کے موقع پر تربت کو فورسز اہلکاروں نے مکمل سیل کردیا گیا تھا لیکن قاتل آکر قتل کے بعد باآسانی نکل جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طیبہ بلوچ کے والد کے قاتل وہی ہے جنہوں نے پہلے ریاستی سرپرستی میں سبین محمود، فیصل بلوچ، صدیق عیدو سمیت سینکڑوں سیاسی اور سماجی کارکنوں کو قتل کیا اور چھاونیوں میں موجود اپنے پناہ گاہوں میں گئے۔
ماما قدیر نے کہا کہ انسانی حقوق کے ادارے کے طیبہ بلوچ کے والد حنیف چمروک کے قتل پر ہنگامی نوٹس لیکر پاکستانی حکومت سے جواب طلب کریں۔