میں وفاقی وزیر سے یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہوں کہ کیا انہوں نے اپنی عدالت قائم کی ہوئی ہے جو بے گناہ لوگوں کو دہشت گردی کے القابات سے نوازتی ہے جب کہ میں سمجھتی ہوں کہ ملکی قوانین کے تحت سیاہ اور سفید کرنے کا اختیار ملک کے عدلیہ کو ہے نہ کہ کسی وفاقی وزیر کو۔ ان خیالات کا اظہار ماہ زیب بلوچ نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین بلوچ کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ اور والدہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے گذشتہ روز بیان کے ردعمل میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ، حوران بلوچ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی سمی بلوچ اور دیگر افراد موجود تھے۔
لاپتہ راشد حسین کے لواحقین کا کہنا تھا کہ راشد حسین کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا اور نصف سال تک لاپتہ رکھنے کے بعد 22 جون 2019 کو پاکستان منتقل کیا گیا اور منتقلی کی تصدیق عسکری و سرکاری ذرائع نے بارہا کی۔ 3 جولائی 2019 کو ملک کے مین اسٹریم میڈیا اور بالخصوص بلوچستان کوئٹہ کے صحافی اور آج ٹی وی بلوچستان کوئٹہ کے بیورو چیف مجیب کی تفصیلی رپورٹ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جس میں وہ راشد حسین کی خلیجی ریاست سے گرفتاری، پاکستان منتقل کرنے کا خبر چلاتے ہیں۔
لواحقین نے کہا کہ گذشتہ دنوں پی ڈی ایم کے کوئٹہ میں منعقدہ جلسے میں دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ہم نے جلسے میں شرکت کی تاکہ پی ڈی ایم کے قیادت سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے کردار ادا کرنے کی التجاء کی جاسکے اور ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ بلوچستان میں اس انسانی بحران کی جانب مبذول کروائی جاسکے۔
ماہ زیب بلوچ نے کہا کہ اس دوران میں جلسہ کے اسٹیج پر اپنی چاچا کی تصویر اٹھائے مریم نواز کو تفصیلات بتا رہی ہوں اس تصویر کا حوالہ دے کر انسانی حقوق کے وفاقی وزیر محترمہ شیریں مزاری نے میرے چاچو کی تصویر ٹوئیٹر پر شیئر کرتے ہوئے انہیں گرفتار دہشت گرد کہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس وفاقی وزیر سے یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہوں کہ کیا انہوں نے اپنی عدالت قائم کی ہوئی ہے جو بے گناہ لوگوں کو دہشت گردی کے القابات سے نوازتی ہے جب کہ میں سمجھتی ہوں کہ ملکی قوانین کے تحت سیاہ اور سفید کرنے کا اختیار ملک کے عدلیہ کو ہے نہ کہ کسی وفاقی وزیر کو۔
لواحقین نے کہا کہ راشد حسین کو دہشت گردی کے بے بنیاد جھوٹے الزامات کے تحت مقدمات میں نامزد کیا گیا لیکن پھر بھی اس کے باوجود ہم ملکی قوانین کے برعکس کوئی مطالبہ نہیں کررہے ہیں بلکہ ملکی قوانین کے تحت بنیادی انسانی حق کا مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر راشد حسین پر کوئی جرم کرنے یا سرزد ہونے کا شبہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے شفاف ٹرائل کے ذریعے مقدمہ چلایا جائے اور انہیں اپنی دفاع کا برابر موقع دیا جائے تب عدالت ان کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں من و عن تسلیم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ تب وفاقی وزیر ہمیں جن القابات سے نوازے تو وہ ہمیں سر بہ چشم قبول ہوگی اور نہ کہ انسانی حقوق کے وفاقی وزیر کے انسانی حقوق کی ترجمانی کے بجائے انسانی اقدار کی پامالیوں کی ترجمانی پر کوئی اعتراض ہوگی۔