شیرین مزاری نے راشد حسین بلوچ کو ایک بار پھر گرفتار ظاہر کردیا

830

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیرین مزاری نے مفرور قرار دیئے گئے راشد حسین بلوچ کی ایک بار پھر گرفتاری ظاہر کردی ہے۔

وفاقی وزیر نے مریم نواز کے متعلق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز گرفتار دہشتگرد کی تصویر اٹھائی انجانے میں ان کی حمایت کررہی ہے۔

خیال رہے گذشتہ روز کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا تیسرا جلسہ منعقد ہوا جہاں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پہنچ کر اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ اس موقع مریم نواز نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی تصاویر اٹھاکر ان سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اپنے خطاب میں لاپتہ افراد کے بازیابی کا مطالبہ کیا۔

لاپتہ افراد کے لواحقین میں لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ اور بھتیجی ماہ زیب بلوچ بھی شامل تھی۔ راشد حسین کے لواحقین کے مطابق انہیں 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات کی خفیہ اداروں نے پاکستان کی ایماء پر لاپتہ کیا اور چھ مہینے تک لاپتہ رکھنے کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا گیا جہاں وہ تاحال لاپتہ ہے۔

خیال رہے راشد حسین بلوچ کو گذشتہ سال متحدہ امارات میں جبری گمشدگی کے بعد تاحال لاپتہ ہے پاکستانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ راشد حسین کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان منتقل کردیا گیا ہے تاہم ان کے لواحقین کے مطابق پاکستانی میڈیا کے دعوے من گھڑت ہے راشد حسین کو غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کیا گیا ہے۔

بعدازاں رواں سال 20 اپریل کو کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت میں مقدمے کی سماعت ہوئی، عدالت نے مقدمے میں لاپتہ راشد حسین کو مفرور قرار دے دیا۔ لیکن ایک دفعہ پھر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیرین مزاری نے انہیں گرفتار ظاہر کردیا۔

لاپتہ راشد حسین کے لواحقین گذشتہ دو سال سے کوئٹہ اور کراچی میں احتجاج کررہے ہیں اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں ان کی گمشدگی کے حوالے سے پٹیشن دائر کیئے جاچکے ہیں۔

راشد حسین کے بازیابی کے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشل نے متحدہ امارات سے اپیل کی ہے جبکہ ممبر یورپین پارلیمنٹ جیوڈ کرٹن ڈارلنگ نے امارتی سفیر محمد عیسیٰ حماد سے ان کی غیر قانونی طور پر گرفتاری اور پھر پاکستان کے حوالگی کے بابت ایک خط کے ذریعے جواب طلب کیا ہے اور ساتھ ہی ان کے زندگی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا۔

راشد حسین کی ہمشیرہ فریدہ بلوچ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ جب ہم نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تو کورٹ نے اس بارے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ سمیت مختلف تحقیقاتی اداروں کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے نوٹسز بیھجے تھے کہ وہ اس بارے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے تحریری رپورٹ جمع کرے تو ان میں سے بیشتر اداروں نے عدالتی احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جبکہ وزارت داخلہ کے سیکرٹری کے ایماء پر ان کی جانب سے محکمہ داخلہ اسلام آباد کے سیکشن آفیسر نے حلفیہ بیان جمع کروایا ہے کہ مذکورہ شخص کو نہ ہم نے گرفتار کیا ہے اور نہ کہ ہماری تحویل میں ہے۔

فریدہ بلوچ کا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ ان کا یہ بیان نہ صرف حقائق سے چشم پوشی ہے بلکہ عدالت عالیہ کو گمراہ کرنے اور ان کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔