شہید چاکر بلوچ ایک مخلص اور نڈر سپاہی
تحریر: ظفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں ہمیشہ مظلوم اور محکوم طبقے نے قومی بقاء اور ایک روشن مستقبل کے لیے قابض کے قبضے کے خلاف ثابت قدم ہوتے ہوئے محکوم اور مظلوم اقوام کو سامراج کی غلامی سے نجات دی اور قابض کو سیاسی اور گوریلہ جنگ کی توسط سے بھاگنے پر مجبور کیا یعنی قابض کے قبضے کو مقبوضہ جات سے بھاگنے اور سرنڈر کروانے کے نہج تک پہنچایا۔ شہداء کے گرتے لہو کے ہر قطرے کا بدلہ لینے اور قابض کو مقبوضہ بلوچستان سے بھاگنے کا عہد شہداء کے فکری ساتھیوں نے لیاہے اور آج پورے بلوچستان میں آزاد بلوچستان کی آزادی کی جنگ زور وشور کے ساتھ جاری ہے۔
قابض اپنے پوری طاقت کے ساتھ بلوچ قومی تحریک آزادی کو کچلنے کی بے جا کوششوں میں مصروف عمل ہےلیکن اب اس تحریک آزادی کے کاروان کا رکنا قابض دشمن کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ایک بلوچی محاورہ ہے کہ (آب چہ سرا گوستا ) یعنی پانی سر سے گزر گیا ہے اب اس جنگ کا رک جانا ناممکن ہے۔
سر زمین بلوچستان شہداء کے لہو سے لہولہاں ہے لیکن جہاں لوگ ماتم کے بجائے شعوری طور پر کاروان آزادی کے سفر میں جوق در جوق شامل ہورہے ہیں اور سر زمین بلوچستان کا قرض ادا کرنے میں بلوچستان کے حسین وادیوں کی چوٹیوں پر بیٹھے ہوئے اپنے سر زمین کی آزادی کی جنگ دلیری سے لڑ رہے ہیں اور کہتے ہیں کامل جنگ ہمیشہ شعوری طور پر لڑی جاتی ہے۔ فکری اور شعوری طور پر جو بھی پروگرام کا ابتداء ہو وہ ایک نہ ایک دن اپنے منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔
اب میں ایک نو عمر نوجوان سرمچار شہید چاکر بلوچ کے حالات زندگی بلوچ تحریک آزادی کی جدوجہد میں ان کی سفر کے بارے میں کچھ الفاظ قلم بند کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے ذہن کو سکون مل جائے، شاید میرے ان لکھے ہوئے چند سطروں سےشہید کی کارواں کے مسافت میں شاید انصاف نہ ہو لیکن یہ پورے کاروان کا فرض بنتاہے کہ اپنے علم و زانت کے مطابق بلوچ شہداء کے متعلق کچھ ک لکھنے کی فرصت نکالیں تاکہ یہ حروف آنے والے نسل تک شاید منتقل ہوں کیونکہ شہداء کے فکری وارث ہر وہ ورکر اور سپاہی ہے جو شہداء کے فکرکو آگے لے جارہے ہیں۔ یہ ان سب کی زمہ داری بنتی ہے کہ فکر شہداء کو زندہ رکھنا اور پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
شہید چاکر بلوچ شورش زدہ بلوچستان کے علاقے مشکے پرپکی میں غلام نبی بلوچ کے گھر میں پیدا ہوئے، گاؤں کے قریب اسکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کرسکے لیکن کہتے ہیں پڑھنے کا بہت شوق تھا بوجہ غربت پڑھ نہ سکے، اپنے بڑے بھائی کے ساتھ زمینداری کیا کرتے تھے۔ حالیہ بلوچ جدوجہد دن بدن پورے بلوچستان میں پھیل رہا تھا تو دیگر نوجوانوں کی طرح شہید چاکر بلوچ آزادی کے کاروان میں شامل ہوئے رفتہ رفتہ ایک ایماندار اور نڈر سرمچار کے طور پر بی ایل ایف کے پلیٹ فارم میں ایک اچھے اور مخلص سپاہی کے طور پر اپنا قومی فرض نبھاتے تھے اور جنگ میں کامیاب حکمت عملی کے توسط سے دشمن کا جینا حرام کر دیا تھا ۔
مشکے کے ساتھ ساتھ گریشہ میں بھی قابض دشمن کے خلاف میدان جنگ میں پیش پیش تھے۔ 3 اگست 2015 کو مکار دشمن نے علاقائی مخبروں کی سرپرستی میں رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک آپریشن کے دوران شہید چاکر کو گریشہ کے مقام پر شہید کردیا۔
شہید کی جسد خاکی کو اگلے روز مشکے جیبری کے قدیم قبرستان میں آزاد بلوچستان کی بیرک اور فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔
شہید چاکر جان آج دیگر بلوچ شہداء کے ہمراہ اپنے سرزمین کے آغوش میں ہمیشہ کے لیے محو خواب ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔