جب تک ہماری شہداء کی لاشیں ہماری حوالے نہیں کی جائیں گی، شہید فدا بلوچ چوک پر ہماری پر امن احتجاج جاری رہے گی۔ ہماری حمایت میں آگے بڑھیں، یہ احتجاج صرف انسانی اقدار کے لئے ہے۔
گذشتہ دنوں پاکستانی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں جانبحق ہونے والے بلوچ آزادی پسند جنگجووں عرفان بلوچ اور نورخان کے لواحقین، رشتہ داروں اور دیگر خواتین کی ایک بڑی تعداد نے کیچ پریس کلب میں ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان مکران چیپٹر کے کوارڈینیٹر غنی پرواز کے ہمراہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے پاکستانی فوج کی ظالمانہ و سفاکانہ داستان آپ کے توسط سے انسانی حقوق کے ملکی، عالمی اداروں ا ور مہذب دنیا کے علم میں لانا چاہتے ہیں۔
ایک خاتون نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں شہید غلام مصطفیٰ کی بیٹی شِہلا مصطفیٰ ہوں، 25 مئی 2013 کو میرے والد کو پاکستان آرمی نے بلوچستاں میں اپنی انتخابات کی بلوچ عوام کی جانب سے مکمل بائیکاٹ کے بعد دس سے زائد بلوچوں سمیت قتل کیا تھا۔ میرے والد کے قتل کے بعد متعدد مرتبہ مجھ سمیت ہماری تمام خاندان کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا، اس کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ ہم کئی دنوں تک کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے اور پانی پینے کے واسطے ایک گلاس تک بھی ہماری گھروں میں سلامت نہیں بچی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 28 ستمبر کو میرے بھائی عرفان بلوچ اور نورخان بلوچ کو پاکستان آرمی نے شہید کیا تھا، ہم 29 ستمبر کی صبح لاشوں کو وصول کرنے تمپ (واپڈا گریڈ) آرمی کیمپ گئے تو آرمی ہمارے ساتھ انتہائی توہین و حقارت آمیز رویے سے پیش آئی اور شام تک ہمیں انتظار کرانے کے بعد ہم سے کہا گیا کہ کہ رات دس بجے آکر شہداء کی جسد خاکی لیکر جاؤ۔
انہوں نے بتایا ہم نے پوری رات کیمپ کے سامنے انتظار کیا مگر ہمیں میتیں نہیں دیے گئے اور بار بار فوجی اہلکار ہمارے پاس آکر توہین آمیز رویے سے پیش آتے رہے، ہمیں گالیاں دیتے رہے، ہمیں ہر طرح سے حراساں کرنے کی کوشش کی لیکن ہم اپنے پیاروں کی میت وصول کرنے کے لئے بیٹھے رہے اس کے باوجود فوج نے ہمیں میت نہیں دیئے۔
شِہلا مصطفیٰ نے کہا کہ پھر ہم نے علاقائی معتبرین سے درخواست کی کہ وہ فوج سے بات کریں جب علاقائی معتبرین نے فوج سے بات کی تو معتبرین سے کہا گیا آپ کو لاشیں کل تیس ستمبر کو ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم تیس تاریخ کی صبح لاشوں کو وصول کرنے گئے تھے تو ہمیں معلوم ہوا کہ تمپ میں ٹریکٹر کے ذریعے گڑھا کھود کر عرفان جان اور نور خان کی لاشوں کو گھسیٹ کر آخری رسومات و جنازہ ادا کیے بغیر لاشوں کو گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈالا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے پیاروں کی شہادت پر اتنا دکھ نہیں جتنا کہ ان کی لاشوں کی بے حرمتی سے ہوا، یہ ریاست خود کو اسلامی و جمہوری کہتا ہے یہ کون سی اسلامی قانون ہے کہ بے جان جسموں کو گھسیٹا جاتا ہے، ان کی بے حرمتی کی جاتی ہے، ان کی تدفین انسانوں کے بجائے ٹریکٹر کے کھودے گئے گڑھے میں پھینک کر کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان حرکات کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ انسانی اقدار، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بلوچ قوم سے پاکستان کی نفرت کی انتہاء ہے جو ایسے غیر انسانی حرکات کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ابھی صورتحال یہ ہے کہ جہاں ٹریکٹر کے کھودے گئے گڑھے میں ہمارے پیارے دفن کئے گئے تھے وہیں فوج نے اپنے اہلکار تعینات کردیئے ہیں ہمیں فاتحہ تک پڑھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
لواحقین نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کی لاشیں حوالے نہ کرنے کے پیچھے اس کے سواء کوئی اور وجہ نہیں کہ انہیں کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے مارا گیا ہے، ان کی لاشوں کو جلایا گیا ہے یا کسی اور طریقے سے ان کی چھیر پھاڑ کی گئی ہے کیونکہ حال ہی میں گچک کے علاقے میں دو نوجوانوں کی لاشوں کو نام نہاد اسلامی فوج نے ورثاء کے حوالہ کرنے کے بجائے اسی طرح دفن کی تھی۔
لواحقین نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کے ملکی و عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان لاشوں کی اپنی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کرائیں اگر یہ نہیں کرسکتے ہیں تو ہمیں لاشوں کو نکالنے اور بلوچی طریقے سے تجہیز و تکفین کرنے، جنازہ و آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرس میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ جب تک ہماری شہداء کی لاشیں ہماری حوالے نہیں کی جائیں گی، شہید فدا بلوچ چوک پر ہماری پر امن احتجاج جاری رہے گی اور ہماری دنیا بھر کے انسانیت دوستوں سے اپیل ہے کہ ہماری حمایت میں آگے بڑھیں کیونکہ ہمارا یہ احتجاج صرف اور صرف انسانی اقدار کے لئے ہے۔