سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 52 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

670

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں

RCDC (رورل کمیونٹی ڈویلپمنٹ کونسل) ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، نیم این جی او ٹائپ کا۔ یہ ادارہ 1961ء میں قائم ہوا۔ اس کے ممبروں کی تعداد 63 ہے۔ یہ ادارہ بہت ساری سرگرمیاں کرتا ہے۔ خاموش مگر بہت متحرک اور وسعت والی این جی او۔ وہی این جی او اووں والا ”وژن“، جس میں وہی جینڈر ایکوئیلٹی، سوشل جسٹس، ڈیموکریسی اور ٹالرنس والے بڑے بڑے لفظ شامل ہیں۔ یہ ورلڈ بنک، نیوزی لینڈ سفارت خانہ، عورت فاؤنڈیشن، آکسفام، سیپ، سیودہ چلڈرن سے مالی مدد لیتی ہے۔

ہم ربع صدی سے این جی اوز کو قریب سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اور اس ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ RCDC نامی یہ این جی او کام ”بھی“ کرتی ہے۔ ہم نے اس کا کام خود دیکھا ہے۔ موقع ملے تو یہ جہازوں ہوٹلوں کی لابیوں میں بھی لابی انگ کرتی ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ بلوچستان کے دل گوادر اور آس پاس دیہاتوں بستیوں میں خیر کے کام بھی کرتی ہے۔ اس کی اس بڑی کمپلیکس نما عمارت میں ایک بڑا ہال ہے، تین ہزار کتابوں پر مشتمل لائبریری ہے، کمپیوٹر سیکشن ہے اور ایک ہائیر سکینڈری سکول چل رہا ہے۔ یہی تنظیم یہ کتب میلہ منعقد کروارہی تھی، جس میں ہم اپنی کار موٹر اور اپنے خرچے پر کوئٹہ سے شرکت کررہے تھے۔ ”کتاب میلہ“………… یہ لفظ ہی متبرک ہے۔

کتاب دنیا سے وابستہ بے شمار لوگوں اور پبلشروں نے اپنے سٹال لگا رکھے تھے۔ دوسرے لفظوں میں، کتاب میلہ دراصل کتب کے سٹالوں کا میلہ تھا۔ ہال کے اندر سامعین کی کرسیوں کے پیچھے اور پہلوؤں میں انگریزی لفظ Uکی شکل میں یہ سٹال لگائے گئے تھے۔ ہر موضوع پہ کتب موجود تھیں۔ کہیں 30 فیصد رعایت کی پرچی لگی ہوئی تھی، کہیں 50 فیصد کی۔ تاریخ سے لے کر عمرانیات تک، اور سائنس سے لے کر مذہبیات تک، بلوچ سے لے کر انگریز و امریکہ تک، اور، بچوں کی کتابوں سے لے کر فلسفہ تک نوع بہ نو اور تازہ ترین کتب دستیاب تھیں۔ پرنٹ کی صورت میں نظریات تجربات اور علم کا تازہ بہ تازہ خون بلوچ رگوں میں آرہا تھا۔ صرف ایسا نہیں کہ بلوچ بیرونی دنیا سے واقف ہورہا تھا بلکہ وہ تو خود سے بھی معانقہ کررہا تھا۔ بلوچی زبان میں بے شمار کتابیں بک رہی تھیں۔

اور مکران تو کتاب کا بھوکا ہے………… کیا مرد کیا عورتیں، اور کیا سکولی کالجی بچے بچیاں۔ (واضح رہے کہ دو لاکھ کی آبادی والے پورے گوآدر میں ایک دانہ ڈگری کالج قائم ہے)۔………… دھڑا دھڑ میزیں خالی ہورہی تھیں۔ بلوچستان کی آنکھ، گوآدر کے اس شان دار این جی او کا ہال، کمرے، احاطہ اور پورا شہر ادب دوستوں، ادیبوں اورفن کاروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ وطن جو صبح و شام اپنے ہی لہو میں نہاتا ہے، اس کی جی داری اور حوصلے کی داد دیجیے کہ وہ آج بھی ادب کو سر آنکھوں پر رکھتا ہے، ادیبوں اور فن کاروں کی راہ میں آنکھیں بچھاتا ہے۔ کتاب دوست معاشرے ہی انسانی معاشرے ہوتے ہیں۔
کتاب کیا ہے؟۔ یہ پیچیدہ ترین مخلوق یعنی انسان کی پیچیدہ ترین تخلیق ہے۔ کتابوں کے ساتھ انسان کا سلوک بھی عجب رہا ہے۔ ابھی چھ آٹھ ماہ قبل پورے مکران ڈویژن میں کتاب گھروں پر سرکاری یلغار کی گئی تھی۔ بے شمار کتابیں ضبط کی گئیں اور ہم مصنفوں کو خطرہ ہوا کہ پھر ضیا الحقی گرفتاریاں جیلیں نصیب ہوں گی۔ مگر، پھر آج صوبے کے وزیراعلیٰ کا دست ِراست کتب میلہ کا افتتاح کرتا ہے۔ اور انہی لوگوں کی کتابوں پر مشتمل میلے کا افتتاح کررہا ہے جن کی کتابیں محض چھ ماہ قبل ضبط کردی گئی تھیں۔ کتاب حیران، قلم حیران، کاغذ حیران۔ کل یہ کہہ کر بک شاپس پہ چھاپے مارے جارہے تھے کہ کتاب ریڈیکلائزیشن کراتی ہے، آج یہ کہہ کر افتتاح ہورہا تھا کہ کتاب ریڈکلائزیشن سے بچاتی ہے۔

کتاب سے عشق زندگی کا ایک ایسا خوب صورت تجربہ ہے جو آخری سانس تک ساتھ دیتا ہے۔ کتاب پکی اور بہت دیر تک رہنے والی دوست ہے۔ انٹرنیٹ، فیس بک اور اس کے منابع و شاخیں آج کی حقیقت ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کتاب ختم ہونے والی ہے۔ وہ چھ ہزار برس سے کسی نہ کسی رنگ روپ میں ہمارے ساتھ ہے اور اس سے عشق، زندگی کا سب سے خوب صورت عشق ہے۔ کتاب سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے، اوراس کی رائے سے متفق بھی ہوا جاسکتا ہے۔ ہم نے محبت اور نفرت دونوں جذبات کے ساتھ کتاب پر حملے دیکھے ہیں۔ یہ اگر برناڈ شاہ کی ہے تو ہنسائے گی، اسکائی لس کی ہوگی تو دھڑکنیں غم ناک سینہ کوبی کی ریکارڈنگ بن جاتی ہیں۔ نیند نہ آئے تو سونے میں مدد گار ہوگی، حرکت کرنا چاہو تو یہ تحریک دے گی۔ اپنے حلقے، حصار میں رکھے گی، راہنما بنے گی۔ کتاب ہمیں انسانی زندگی کی نزاکتوں سے آشنا کرتی ہے۔

شکر ہے کہ بلوچستان محض کتاب جمع نہیں کرتا، محض اسے سٹور نہیں کرتا، بلکہ وہ اسے پڑھتا بھی ہے۔ مہذب انسان اور مہذب معاشروں کی پہچان۔

کتاب ……یہ لفظ اگرعبرانی، لاطینی اور عربی میں ہے تو کیا تقدس بھرے مذہبی معنی دیتا ہے۔ کتاب، اگر فارسی بلوچی میں کہیں تو کیا کیا تنوع ہوگا اس کے معانی میں۔ بنیے کی دکان میں اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جو کھلونے بیچنے والے کی ریڑھی پر رکھے چینی کھلونے کا ہوتا ہے۔ لائبریری میں ہے تو آن شان اور ہے، گھر میں ہے تو مقام کچھ اور۔ فٹ پاتھ پہ وصل کے لیے پڑی ہو تو اُس کا عاشق سب سے وفادار، اپنا سب کچھ لٹایا ہوا، اور مقدس ترین روح کا مالک ہوگا۔ کتاب اگر ردی فروش کے ترازو میں ہے تو گویا انسانی شرف وقار اور عصمت سرِ عام وحشی اور نا پالتو آدم نما مردم زاد کے گوح جیسے کھردرے پنجوں ناخنوں میں تار تار ہورہی ہو۔ کتاب کورس کی ہو تو بلوچستان میں اُس کے ساتھ امتحانی ہال میں بدن دریدگی ہوگی، اور اگر عبادت گاہ میں ہو تو اُس کے متن و معانی کا اِس زندگی اِس دنیا سے تعلق باقی نہیں رہتا۔ کتاب اگر فرقہ وار کے حوالے کیا جائے تو یہی کتاب بربادی کا موجب ہوگی۔ اور کتاب جب تقدس کی علامت بنتی ہے تو قتل و جائیداد کے فیصلوں کے لیے محض اس کا نام لینا ہی کافی ہوتا ہے۔ کتاب وکیل کے پاس ہوتی ہے تو اس کے بخیے ادھڑ دیے جاتے ہیں، اسے ننگا کیا جاتا ہے۔ عدالت میں ہو تو اسے جذبات و محسوسات کی قبر بنایا جاتا ہے۔ اور اگر پھانسی گھاٹ میں ہے تو عزم و استقلال، شاشان کوہ سے بلند ہوجاتا ہے۔

آئیے ہم و ہ چینی نظم پڑھ لیں جو بدھ مت سے دور لے جانے والی ”اس“ چیز کی مذمت میں کہی گئی ہے۔ اور وہ چیز ہے کتاب:
نہ پڑھ کتابیں
نہ گا نظمیں
جب تم کتابیں پڑھوگے تو تمہاری آنکھوں کے ڈھیلے سوکھ جائیں گے،
جب تم نظمیں گاؤ گے تو تمہارا دل آہستہ آہستہ باہر کو بہہ نکلے گا
ہر لفظ کے ساتھ،
لوگ کہتے ہیں کتاب پڑھنا مسرت بخش ہوتا ہے،
لوگ کہتے ہیں نظمیں گانا پر لطف بات ہے،
لیکن اگر تمہارے لب متواتر ایسی آواز نکالیں
جیسے خزاں میں جھینگے جیسا کیڑا نکالتا ہے
تو تم محض ایک بڈھے باتونی لاغرشخص میں تبدیل ہوجاؤ گے
اور اگر تم ایک بڈھے لاغر باتونی شخص میں تبدیل نہ بھی ہوجاؤ
تو بھی دوسروں کے لیے تمہارا سننا نا خوش گوار ہے
یہ بہت بہتر ہے کہ
تم اپنی آنکھیں بند کرلو، اپنے کمرے میں بیٹھ جاؤ
پردے گرادو، فرض جھاڑ دو،
خوشبودار جھاڑی کا دھواں کرو
ہوا کو سننا خوب صورت ہے،
بارش کو سننا،
جب توانا بنو تو ایک چہل قدمی کرلو،
اور سو جاؤ جب تم تھک جاؤ!!

اب ہم ماؤزے تنگ جتنے بڑے تو ہیں نہیں کہ اس موضوع پہ کتابچہ لکھیں: ”کتاب پرستی کی مخالفت کی جائے“۔ نہ ہی ہم نے ایک بار سی آر اسلم کے جھڑکنے کے بعد بُلھے شاہ کا یہ مصرعہ دہرانے کی دوبارہ کبھی جرأت کی: ”علمو بس کریں اویار“۔
ہمارا بس یہ خیال ہے کہ کتاب احمقی کے تسلسل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ کتاب جہالت کا انٹی ڈوٹ ہوتی ہے، کتاب وحشی کے پتھردل کو موم بناتی ہے (بشرطیکہ آسمان بھی اُس پہ مہربان ہو)۔

جس گھر میں کتاب نہ ہو‘ وہ گھر نہیں مارشل لا ہیڈ کواٹر ہے۔ جس گاؤں میں کتاب گھر نہ ہو، ویرانی اس کا مقدر ہو۔
میں نے سٹا ل میں بلوچی کی کتابوں پر دھاوا بول دیا اور بے شمار کتابیں خرید ڈالیں۔

…………ناصر رحیم سورابی تم زندہ رہو، اچھا!!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔