سورج کا شہر (حصہ دوئم) | آخری قسط – ڈاکٹر شاہ محمد مری

1188

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں

اِس بار ہم نے بہت برس بعد بخشی ہوٹل پھر دیکھا: گوادر، بخشی ہوٹل۔ بخشی ہوٹل، گوادر۔ خود تو بل نگوئر کا ہمارا سرخ و سفید اور گپ شپی دوست اب حیات نہ تھا، مگر اُس کی نشانیاں باقی تھیں۔ اور نشانیوں کو ہونہار بیٹے اور داماد جس قدر بھی سنبھال رکھیں، نشانیاں تو نشانیاں رہتی ہیں۔ اب میں دوستوں کی محفل میں بیٹھے اپنے دل کو چھیڑ رہا تھا کہ گوادر کے میلوں میں گوادر کے ”مری ہر دم یاد کرتے رہیں گے کہ ارے آج مست نہیں ہے، مست کی شاعری کے ریلے نہیں ہیں“۔ بخشی تم بہت یاد آئے، امیر الدین تم بہت یاد آئے ………… مجھے اپنا آپ اچھا لگا کہ میں اپنے یاروں کو بھولا نہ تھا۔ یادیں تو صرف ”انسان“ کے ساتھ ہوتی ہیں ناں!!

وہیں بخشی ہوٹل میں رات کو دوستوں نے موسیقی کا پروگرام منعقد کرایا، بہت محظوظ ہوئے۔ دوستوں کی طرف سے دوستوں کو بخشے احترام کے گھونٹ لیے۔ خلوص میں خالص، مقدار سخاوت کی ہم پلہ، تناول بہت ہی حسب ِ استطاعت۔ کبھی نواسے پوتے ہنسیں گے کہ ”اُس“ نے کوئٹہ سے گوادر جاکر جیئند کو ڈاچی کے دودھ کا انتظام کرنے کو کہا، جیئند نے ضیا کو، ضیا نے عابد کو، عابد نے بجار کو، بجار نے گلزار کو، گلزار نے دکاندار کو ……۔

کچھ دوست سیروں اور کلوگراموں کے حساب سے کچلا نگل کررہے تھے اور کچھ بیچارے چھ فیصد والے نیم کڑوے بادام کے محض ایک ہی دانے سے مغز کو پر مغز بناتے جارہے تھے۔ کسی کسی نے تو پورا تاکستان گود میں لے رکھا تھا۔ اُس پلنگ پہ دیکھو ایک دوست بیٹھا ذکر و فکر میں مصروف ہے، اِدھر دوسرا مینڈھے پہ مینڈھا خیرات کرتا جارہا ہے۔ اور ترسیل؟۔ وہ تو جیسے گاؤں کی تقریب میں اجتماع کے لیے رکھے گھڑے پر مسیحائی ہاتھ لگاہو، پورا گاؤں پی جائے، گھڑا کے اندر سیال کی سطح وہیں کی وہیں رہے۔

تفکر کے نان سٹاپ پراسیس پہ شاہ لطیف کے جوگیوں کا کالا لباس ڈالے رہنے کے بعد بحال ہوئے تو بخشی ہوٹل کے لان میں اصغر بلوچ کی موسیقی کا انتظام ہوچکا تھا۔ وہ آر سی ڈی سی سکول میں استاد ہے۔ گاتا رہا، سناتا رہا۔ میں نے جب غور سے محفل کا جائزہ لیا تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ ہم بلوچستان میں تھے۔ زُہد و تقویٰ کے معانی بدل ڈالنے والے خالص بلوچستان میں۔ الحمد للہ ہم فکری طور پر آلودہ شدہ کوئٹہ میں نہیں، ابھی تک خالص بلوچ وطن گوادر میں تھے۔ مجھے اپنا بلوچ ہونا اچھا لگا۔

خاصا وقت گزرنے نے، اور خنکی نے، سمندر کی گود میں بیٹھے ہمارے شعور و جسم کا مطلع صاف کردیا تھا۔ تب پروین کی اطلاع اور ہماری فرمائش نما اجازت سے لیاری کے دو نوجوان، استاد بن کر ساز و زیمل کی محفل پر باقاعدہ چھا گئے۔ ایسا لگا جیسے شانتی نکیتن یہاں آچکا تھا، جیسے شوپین سویر کا نغمہ بجا رہا ہو۔ مجھے ارباب خان کھوسو کے یہ بچے فخر کے سلیمان تخت پر بٹھا چکے تھے۔ یہ دو بچے عادل مراد اور عاصم مراد گارہے تھے اور، بہرام و گوہرام نامی دو بچے ہماری خدمت کررہے تھے۔ جیتے رہو۔

اگلے روز ہم کوہِ باثیل پر تھے۔ اُسے، اور اُس کے ایک قدم کے نیچے موجود آبِ حیات، اور دوسرے قدم کے نیچے موجودخاک ِ وطن کو خدا حافظ کہنے۔ کوہِ باثیل تو دنیا میں مٹی اور پانی کا بٹوارہ کرتا ہے۔ ایک طرف بلوچستان کی وسیع زمین ہے جو یہاں سے جھنگ و جیکب آباد و چاہ بہار تک پھیلی ہوئی ہے اور دوسری طرف بے انت پانی ہے جو نیل اور سرخ اور کالا پانی سے جا ملتا ہے۔ تصویریں، تبصرے، قہقہے۔ ………… انسان کے بنا نہ سمندر نہ خشکی نہ باثیل۔

ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا، سورج کے شہر اور سورج طلوع ہونے کی طرف روانہ ہوئے گوادر کوالوداع کہا۔

[اختتام]


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔