بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4112 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے مرد اور خواتین نے کیمپ آکر احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بے بس، بدبخت بلوچ قوم صدیوں سے اپنی زمین پر غلام ہے اور ایسے وقت میں ایک ایسی تباہ کن حالت کا شکار ہوچکا ہے کہ دیکھتے دیکھتے گاوں تباہ ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ستمبر کا سورج پوری قوم کیلئے تباہی لیکر طلوع ہوا۔ جب آواران، مشکے، جھاو، گچک کے علاقے وسیع پیمانے پر متاثر ہوئیں۔ بلوچ قوم کو ان کی غلامی کا شدت سے احساس دلایا جارہا ہے۔ بلوچستان کا ہر علاقہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ بلوچ نے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا، قوم نے واضح کیا ہے کہ وہ بے ضمیر مردہ قوم نہیں جو اپنے قاتل سے مدد مانگے جس نے ان کی زمین پر قبضہ کیا، آئے روز بلوچ فرزندوں کو اغواء، قتل کررہی ہے، بلوچ قوم کے ان دوٹوک الفاظ نے پاکستانی سیاست دانوں سمیت سب کو رد کردیا ہے، حکومتوں نے بلوچ قوم کو سبق سکھانے کیلئے اپنے تمام حربے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے بلوچ قوم پر ظم و جبر کیلئے پالیسیاں ترتیب دیئے اور انہی پالیسیوں کے تحت مشکے، آواران، جھاو، گچک، کلبر، بولان اور دیگر علاقوں کو گھیرے میں لیکر نہ صرف عوام پر ظلم کی انتہاء کردی گئی ہے بلکہ بلوچ عوام کو نقل مکانی پے مجبور کرنے کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق حکومتوں نے دس ہزار سے زائد ریگولر آرمی کو جنگی ہیلی کاپٹر، ٹینک اور دیگر جدید جنگی حالات سے لیس کرکے بلوچستان میں تعینات کیا آج وہ اسٹیج پے کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ ہم شہد اور دودھ میں دھلے ہوئے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا بلوچ متاثرین پر زمین آسمان دونوں کو پنجاب نے تنگ کردیا ہے۔