دھرتی کے عاشق وحشت بھری داڑھیوں میں لوٹ رہے ہیں
تحریر : محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ جو اب ٹیگور جیسے معلوم ہوتے ہیں ۔
وہ جو اب اوشو جیسے معلوم ہوتے ہیں!
وہ گئے تو ان کے ہاتھوں میں سرخ کتابیں تھیں، جب وہ اذیت خانوں سے لوٹ رہے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں تسبیحاں ہیں۔ وہ جو راہ چلتے اُٹھا لیے گئے تھے تو ان کے چہرے محبوبہ کی گالوں جیسے تھے، اب جب وہ لوٹ رہے ہیں تو ان کے چہروں پر وحشت سی اُگی داڑھیاں ہیں۔
نہیں معلوم کہ جب وہ اذیت گھروں سے لوٹتے ہیں تو وحشی ہاتھ ان کے چہروں پر داڑھیاں کیوں سجا کر انہیں رخصت کرتے ہیں؟
کیا یہ اسلام کی خدمت ہوتی ہے؟
کیا وہ ہاتھ اپنے ہاتھوں سے کسی کو ایمان دے کر رخصت کرتے ہیں؟
کیا وہ ہاتھ ان محبوبہ کی بانہوں جیسے چہروں پر ریاست کا بیانیہ لکھ کر انہیں واپس لوٹا رہے ہیں؟
کیا وہ ہاتھ ان معصوم چہروں پر اپنی بربریت لکھ کر انہیں روانہ کر رہے ہیں؟
کیا وہ ہاتھ ان چہروں میں نورانیت بھر رہے ہیں؟
کیا ان ہاتھوں کو ان چہروں میں کسی کمار، کسی سنجے، کسی مادھو لال کا چہرہ نظر آتا ہے جو وہ ان چہروں کو ایمان سے بھر کر واپس لوٹا رہے ہیں؟
کیا ان ہاتھوں کو ان چہروں میں کوئی مندرنظر آتا ہے جو وہ ان چہروں میں کسی مسجد کو تعمیر کر کے بھیج رہے ہیں؟
جو بھی گم ہوتا ہے چاند سے چہرے کے ساتھ
جو بھی لوٹتا ہے دوگز لمبی داڑھی کے ساتھ
جو بھی گم ہوتا ہے نور بھری آنکھوں کے ساتھ
جوبھی لوٹتاہے بے نور آنکھوں کے ساتھ
جو بھی گم ہوتا ہے ہوش حواسوں میں
جو بھی لوٹتا ہے آدھا پاگل بن کر
وہ عاشق کی طرح گم ہو تے ہیں اور دیوانوں کی طرح لوٹ رہے ہیں
جب وہ دھرتی کی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہوتے ہیں تو انہیں، دھرتی،ماں محبوبہ کے سارے نقش یاد ہوتے ہیں، پر جب یہ اذیت خانوں سے لوٹتے ہیں تو انہیں نہ گھر یاد ہوتا ہے نہ وہ گلی جس گلی سے مڑ کر وہ گھروں کے کچے دروں میں داخل ہو تے ہیں، وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں، انہیں اپنے ساتھ لینے والے یہ مہربانی ان کے ساتھ کر جاتے ہیں کہ جب انہیں لوٹاتے ہیں تو انہیں یا تو گھروں کے کچے دروں پر چھوڑ جاتے ہیں جن کچے گھروں کے کچے دروں پر بس گھر کا پردہ ہی نہیں لٹک رہا ہوتا۔ وہ پردہ ہی ان کی آہٹ کا منتظر نہیں ہوتا پر ان کچے گھروں کے کچے دروں پر ان ماؤں کی آنکھیں بھی لٹک رہی ہوتی ہیں، جن آنکھوں کی نیند جب ہی ماری جا تی ہے جب پہلے دن کافی رات گزر جانے پر بھی وہ نہیں لوٹتے جو کسی بھی وقت گھر آتے ہیں تو مائیں جاگ رہی ہوتی ہیں اور وہ ماں سے کہتے ہیں۔
”اماں مان اچھی ویو آھیان!“
پھرمائیں بے فکری سے پاسا پلٹ کر سو جاتی ہیں!
پر یہ جو نئے اوشو جسے
یہ نئے ٹیگور جیسے لوٹ رہے ہیں
کسی نے ان کی ماؤں سے پوچھا ہے کہ وہ کب سے نہیں سوئیں؟
وہ کب سے جاگ رہی ہیں
اور وہ آخری بار کب سوئیں تھیں؟
ان کے اُٹھائے جانے کہ بعد تو وہ مائیں بس صبح کے انتظار میں جاگی ہیں
وہ سوئی نہیں انہوں نے نیند نہیں کی
کسی ماں کی نیند مسعود شاہ کے ساتھ اُٹھالی گئی
کسی ماں کی نیند شاہد جونیجو کے ساتھ اچک لی گئی
کسی ماں کی نیند فٹ پاتھ پر انتظار کر رہی ہے کہ وہ لوٹے گا تو پھر وہ بھی لوٹے گی
کسی ماں کی نیند عاقب چانڈیو کے ساتھ رخصت ہوئی
کسی ماں کی نیند شاہد رضا کے ساتھ روٹھ گئی۔
اب جب وہ لمبی داڑیوں کے ساتھ لوٹ رہے ہیں تو ماؤں کو ان کو پہچاننے میں دشواری کا سامنا ہے، کیوںکہ مائیں ان کی یاد میں بہت آنسو بہا کر اپنی آنکھوں سے بے نور ہوئی ہیں اور ان کے چہروں پر وحشت سی داڑھیاں اُگ آئی ہیں۔ نہ تو ماؤں نے ایسے بچے جنے تھے، نہ تو ماؤں نے ایسے بچے پالے تھے اور نہ ہی ماؤں نے آخری بار ان کے ایسے چہرے دیکھے تھے، نہ تو محبوباؤں نے ایسے پیاروں کو اپنی بانہوں میں بھرا تھا اور نہ ہی ان وحشت زدہ چہروں نے محبوباؤں کے گلابی چہروں کو چومہ تھا۔
وہ چودہویں چاند کی طرح روشن تھے
اب گرہن زدہ چہروں کی طرح لوٹ رہے ہیں
وہ سورج کی مانند چمکتے رہے تھے
اب گرہن زدہ سورج کی طرح لوٹ رہے ہیں
پر نہیں معلوم کہ ماں جیسی ریاست، ریاست جیسی ماں ان کے ایسے چہروں سے دیس کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟
کیا وہ سندھ سے محبت نہ کریں؟
کیا وہ سندھی بولی سے محبت نہ کریں؟
کیا وہ لطیف سے عشق نہ کریں؟
کیا وہ سید کو عظیم رہبر نہ مانیں؟
وہ کیا کریں اور کیا نہیں کریں؟
ان کی لمبی داڑھیوں سے پر نور چہرہ دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
پر پھر بھی یہ سوال تو رہے گا کہ وہ کیا کریں؟
ان کے گم ہوجانے پر سندھ اور ماؤں نے کیا کچھ نہیں کیا
سندھ نے اپنے نین بچھائے اور مائیں ان نینوں پر مسافر بنی
سندھ نے اپنا دامن واہ کیا اور ماؤں نے ان دامنوں کو پرچم بنایا
سندھ اور مائیں ساتھ ساتھ مسافر بنی ہیں
مائیں اور سندھ ساتھ ساتھ روئی ہیں
مائیں اور سندھ ساتھ ساتھ رتجگے کیے ہیں
سندھ اور ماؤں کے نین اپنے پیاروں کی دید کو ایک ساتھ منتظر رہے ہیں
اب جب وہ لوٹ رہے ہیں
تو سندھ روتا ہے تو مائیں سندھ کے گالوں کو صاف کرتی ہیں
اور مائیں روتی ہیں تو سندھ ماؤں کے اشکوں کو صاف کرتی ہے
اور وہ سندھ،دھرتی، ماؤں کے عاشق آگے بڑھ کر ماؤں اور سندھ کو اپنی بانہوں میں بھر لیتے ہیں
سندھ اور مائیں مسکراتی ہیں!
پر وہ ٹیگور، اوشو جیسے نہ تھے
وہ سرمد، ابھی چند، منصور، لطیف، شاہ عنایت جیسے تھے
میٹھے میٹھے
اپنے اپنے سے۔
دیبلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔