جنگل میں آگ لگنے سے پہلے ہی سب کچھ جل چکا تھا
تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تم نے لپکتے آگ کے شعلے دیکھے تو کہاں جنگل میں آگ لگائی گئی ہے، ہم جو جنگل کے باسی ہیں ہم سے پوچھیں، آگ لگنے سے پہلے ہی یہاں سب کچھ جل چکا تھا۔ یہاں کچھ نہ تھا، چند درختوں و جانداروں کے سوا، یہاں جذبات کب کے جل چکے تھے۔ وہ شانتل جو اپنے انڈوں کے پاس تمہیں جلا ہوا ملا وہ شانتل حیات کی ماں کی فریاد تھی، جو اپنے اولاد کو آخری ہچکی لیتے دیکھ کر راکھ ہوچکی تھی۔ آگ تو ستر سالوں سے جلائی گئی ہے، کسی کے کوکھ میں تو کسی کے دل میں، اخبار کی سرخیوں میں تم نے نہیں پڑھا؟ کہ ماؤں کے لاڈلے خود آگ میں کود پڑے اسے بجھانے کے لیئے۔ تم نے دیکھا اس آگ میں اتنے لوگ جلے ہیں کہ ان کے نشانات گم ہیں؟ یہ مائیں جو ہاتھوں میں تصاویر لے کر راکھ کا ڈھیر تلاش رہی ہیں، شاید انکا کچھ کھوگیا ہے، انہیں لگتا ہے کہ کہیں انکے جواہرات آگ سے محفوظ کسی کونے میں بچ گئے ہوں۔
یہ آگ جو سالوں سے لگی ہے، اسکا دھواں کسی نے نہیں دیکھا، مگر اسکی گھٹن نے جانداروں کو اپنا جنگل چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ کوئی شانتل اپنے جلے پروں کے ساتھ کئی بار پرواز کی کوشش میں گرچکی ہوگی اور پھر اٹھی ہوگی اور ایسا کرتے کرتے وہ آگ کے شعلوں سے نکل چکی ہوگی، مگر وہ اپنا آشیانہ جلتا چھوڑ چکی ہوگی۔ وہ کبوتوں کا ٹولہ جسے امن کا پیغمبر کہا جاتا ہے، وہ اپنے سفید پروں کو دھویں کی سیاہی میں آلود کر چکے ہیں، پر اب بھی مقابلے کی لگن و جذبے کے ساتھ جنگل میں رکے ہوئے ہیں۔ اس گروہ کے ارکان مرکر بھی ختم نہیں ہو رہے، خون آلود انکے سیاہی میں ڈوبے َپراب اسے کسی اور ساہدار سے تشبیہہ دے رہے ہیں، جیسے کوئی انسان۔۔۔۔ کوئی جنگ میں لڑتا ہوا سفید کپڑوں والا سپاہی۔
جنگل میں آگ ابھی لگی پر جنگل کب کا جل چکا تھا، جو گِد اڑ کے جا چکے تھے، اب وہ مسخ شدہ لاشوں کو نوچنے لوٹے ہیں، پر خود کو جنگل کا باسی کہہ کر گھر کے جل جانے پہ ہمدردیاں بٹور رہے ہیں۔ یہ گدھ ہمدردیاں بھی بٹورینگے اور لاشوں کو نوچینگے بھی۔ عقابوں کا ٹولہ جنکے گھر تو چٹانوں پہ ہے پر وہ جنگل کو آگ لگانے والوں پہ حملے کئے جارہے ہیں۔
آگ جلانے والوں کے ہاتھوں میں مشعلیں ہے، جن میں لپکتی آگ عقابوں کو ایک ہی وار میں شکار کر لیتی ہے پر عقابوں کے حملے جاری ہیں، یکے بعد دیگر۔۔۔۔ کسی کسی کونے میں ہر چیز راکھ ہوچکی ہے اور کہیں محض کوئلہ بنے درختوں کے کچھ ٹہنیاں سلامت ہیں، جس پہ کسی فاختے کا گھونسلا موجود ہے، مگر وہ دھویں سے بھر چکے ہیں، اب وہاں سانس لینا دشوار ہو چکا ہے۔ تمہیں یہ جاننا ہوگا کہ آگ وہ نہیں جو محض تم نے دیکھا، آگ وہ ہے جو کئی جنگل کے باسیوں کو نقصان دے چکا ہے اور اب تو آگ جلانے والے تسلیم کر رہے ہیں کہ آگ تو تھا اور نقصانات ہو چکے ہیں، مگر وہ تو یہ بھی کہتے ہے کہ جو آگ بجھانے کے لیے آگے بڑھا اور جھلس گیا وہ بھی مجرم ہے۔
میں حیرت زدہ ہوں اس ہمدردی پہ۔۔۔۔ مطلب تو یہ ہوا کہ یہ چاہتے ہی نہیں کہ آگ بجھ جائے۔ وہ کہتے تم میرے الفاظ و احکامات کے آسرے رُک جاؤ۔ یہ الفاظ تمہیں بچالینگے۔ انہیں کہا جائے الفاظ تمہارے عمل کے بغیر وجود نہیں رکھتے ہیں۔ الفاظ کا مقصد ان کبوتروں کو ایسے جذبات دینا کہ وہ نہ تھکے۔ وہ گدِھوں کا حصہ نہ بنے، وہ جنگل کے باسیوں کو کہے کہ گھر کا چھوڑ جانا حل نہیں۔ باقی سب کچھ تو عمل ہے۔۔۔ آگ کا بجھ جانا ہی ضروری ہے جس کے لیے وہ آدم زاد جو انسان ہونے کا دعویٰ کئے مشعل اٹھائے، آگ جلائے جا رہے ہیں، انہیں جنگل سے نکلنا ہوگا یا نکالنا ہوگا۔۔۔۔
تم کہتے ہو وہ انسان ہے، اشرف المخلوقات ہے، میں کہتی ہوں، آگ جلانے والا کسی وجود کا مالک نہیں وہ محض آگ جلانے والا ہے۔ وہ کسی کا سگا نہیں۔ نہ انسانوں کا نہ ہم جنگل باسیوں کا۔۔۔۔ آگ کا بجھنا لازمی ہے۔ آگ جلانے والوں کا جنگل سے نکل جانا لازمی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔