جزیروں پر قبضہ اٹھارویں ترمیم پر شادمانی کرنے والوں کے منہ پرتھمانچہ ہے۔ بی این ایم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر پاکستان کے صدارتی آرڈیننس کو بلوچ اور سندھیوں پر ایک اور حملہ اور ساحل و وسائل پر ڈاکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ سرزمینوں پر قابض کی جانب سے یہ حربے نئی بات نہیں ہیں۔ اس سے ہمارے تمام خدشات درست ثابت ہورہے ہیں۔ ہم نے بہت پہلے ہی کہا تھا کہ ساحل پر قبضہ اور اسے بلوچستان سے علیحدہ کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان بلوچ اور سندھیوں سمیت تمام محکوم اقوام پر حکمرانی کو مضبوط اور قبضہ کو دیرپا بنانے کیلئے نام نہاد آئین اور قانون سازی کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں قانون سازی اور قابض کے آئین کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ ایسے اقدامات کے خلاف بلوچ اورسندھی قوم کی جانب سے مزاحمت ایک فطری عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں اور سندھیوں کے بیش قیمت جزائر پر قبضہ کے لئے ”پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی“ کا قیام اٹھارویں ترمیم پر شادمانی کرنے والوں کے منہ پرتھمانچہ ہے۔ دراصل اٹھارویں ترمیم ایک جھانسا اور پارلیمانی گروہوں کے ذریعے بلوچ قوم کو بہلانے کی ایک کوشش تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پارلیمانی روسیاہوں کو بھی معلوم تھا کہ اٹھارویں ترمیم فریب اور سراب ہے لیکن انہوں نے اس فریب میں ریاست کا ساتھ دے کر شریک جرم بن گئے۔ آج پاکستان کی نام نہاد اٹھارویں ترمیم بھی ٹشوپپر ثابت ہوئی۔ آئی لینڈ یا جزیرے صرف بلوچستان اور سندھ میں ہیں۔ اس پر اسلام آباد میں قانون سازی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ساحل پر قبضہ، بلوچ اور سندھی ماہی گیروں پر شب خون مارنے کی پالیسی ہے۔ بلوچستان کے ماہی گیر پہلے ہی غیر ملکی ٹرالروں اور جالوں کی وجہ سے آبی حیات کے ہولناک صفایا او رنسل کشی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس پہ یہ ستم مستزاد کہ ریاست نے ماہی گیروں کو کھلی سمندر کے بجائے ایک حد کے اندر محدود کردی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر میں ہندوستانی آئینی شق 370 کے خاتمے پر واویلا کرتا ہے، جو دن کی روشنی میں ہوتی ہے۔ لیکن بلوچستان اور سندھ کے جزیروں پر صدارتی آرڈیننس کی باتین دو ستمبر کو میڈیا میں آئی تھیں لیکن آرڈیننس کو چھ اکتوبر کو منظر عام پر لایا گیا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ ایک ڈاکہ ڈالنے جا رہے ہیں۔ یہ جزائر بلوچستان اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں۔ ان پر کسی آرڈیننس کے ذریعے قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف بلوچ اور سندھیوں کو بھرپور مزاحمت کرنا ہوگی۔ بلوچ وفاق پرست پہلے ہی بلوچستان کا سودا کرچکے ہیں کیونکہ وہ نام نہاد اٹھارویں ترمیم کے نام پر بھی ان جزیروں کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ جام کمال اپنے اجداد کی پیروی کرتے ہوئے بلوچستان کی ہر شئے کو پاکستان کے جھولی میں رکھنے کی منظوری دیکر روسیاہی میں اپنا نام تو لکھ رہا ہے، لیکن اس بلوچ دشمنی میں وہ تمام لوگ اور گروہ شریک جرم ہیں جو نام نہاد پاکستانی پارلیمانی نظام میں یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان جزیروں پر ماہی گیر رہتے ہیں اور وہی رہیں گے۔ بلوچ قوم کسی بھی قیمت پر پاکستان کو اجازت نہیں دے گی کہ ایک فوجی کی سربراہی میں ایک فرضی ادارہ قائم کرکے اسے ترقی کا نام دیکر ہمارے سرزمین و وسائل کی استحصال میں نئی شدت لائی جائے۔ جزیروں پر قبضہ اور ”پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی“ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر بلوچ اور سندھی قوم نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت نہ کی تو آئندہ دنوں میں ہماری قومی سرزمینوں پر قبضہ کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان مزید ایسے قدامات کرے گا جس کا تصور ہی خوفناک ہے۔