بی زیڈ یو کے طلبہ اور گدھ کی نسل – ماجد غنی

424

بی زیڈ یو کے طلبہ اور گدھ کی نسل

‎تحریر: ماجد غنی

دی بلوچستان پوسٹ

‎پچھلے کئی سالوں سے بی زیڈ یو ملتان میں بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کیلئے مخصوص نشستیں مقرر کی گئی تھیں لیکن اس سال ان کو ختم کر دیا گیا ہے جس کے خلاف بلوچ طلبہ کئی دنوں سے احتجاج پر ہیں۔
‎اس سال فروری میں گورنر پنجاب نے پروفیسر علیم خان کو پرو وی سی بی زیڈ یو مقرر کیا ۔ پروفیسر علیم خان نے ترکی سے پی ایچ ڈی اور جاپان سے پوسٹ ڈاک کیا ہے جن کا ایک مکالہ گدھ کی نسل کی حفاظت کے بارے میں ہے ۔ پروفیسر علیم خان کی سوچ شروع ہی سے بلوچ قوم پرستی کے خلاف رہی ہے اور پچھلے دو تین سالوں سے بلوچستان اور بلخصوص پنجاب میں بلوچ طلبہ کے کامیاب مظاہروں سے خائف تھے ۔

‎بلوچ طلبہ کی سوچ شروع ہی سے بلوچیت کی طرف رہی ہیں اور پروفیسر علیم خان کو یہ پسند نہیں ۔ بقول عابد میر سرائیکی بلوچ ہوتےہیں اور علیم خان سرائیکی ہے۔ سرائیکی بلوچ پروفیسر بلوچ طلبہ کو بی زیڈ یو میں نہیں چاہتا لیکن اپنی بیٹی ردا علیم خان کو آسٹریلیا پڑھنے کے لیے بھیجتاہے ۔ یہ وہی ردا علیم خان جو فیسبوک پر بلوچ گرل بمعہ پاکستانی جھنڈے کے ساتھ ہے۔ یاد رہے یہ وہی ردا علیم خان ہیں جس نے برمش واقعے پر مظاہروں کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا تھا اور ہمیشہ سوشل میڈیا پر بلوچستان میں سب اچھا اور اپنے پاکستان پسند خیالات کو بلوچ خواتین کی سوچ دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ خیر عابد میر کی بات سے تھوڑی دیر اتفاق کر لیتے ہیں کہ سرائیکی بلوچ ہوتےہیں تو پروفیسر علیم خان گدھ کی نسل کو بچانے کے لیے سرگرم ہیں لیکن بلوچ نسل کے لیے نہیں ۔

‎فروری 2020 میں پروفیسر علیم خان کی تعیناتی، نشستوں کا خاتمہ بلوچ طلبہ کو دیوار سے لگانے کی سازش کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔ امید ہے کہ بلوچ طلبہ ہمیشہ کی طرح ثابت قدم رہینگے اور ریاست کی بلوچ مخالف پالیسی کا مقابلہ کرینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔