بک ریویو: تاریخ اور آج کی دنیا – ڈاکٹر مبارک علی| دوستین محمدبخش

863

بک ریویو: تاریخ اور آج کی دنیا

مصنف: ڈاکٹر مبارک علی
مبصر: دوستین محمدبخش

آج میں جس کتاب کے حوالے سے تبصرہ کرنے جا رہا ہوں وہ کسی ستائش و توصیف کا متقاضی نہیں البتہ ڈاکٹر مبارک علی کا ہر نوشتہ تعریف کا خواہاں نہیں۔ اس کتاب میں ڈاکٹر مبارک علی نے چند معاشرتی معاملات کے حوالے سے لب کشائی کی ہے جس میں اس نے مختلف موضوعات پر بحث کیا ہے۔ جیسا کہ، نیشنل ازم، کولونیل آئیڈیالوجی، امپیریل ازم، مذہب، سامراج، ہیرو پرستی اور کلچر پر بات کیا ہے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ نیشنل ازم نے یورپ میں سب سے پہلے قومی ریاستوں کو اجاگر کیا اور پھر آہستہ آہستہ کولونیل ازم اور امپیریل ازم پھیلا جس کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے طبقات نے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی اور انہوں نے کولونیل تسلط سے آزادی حاصل کی۔ اسی طرح نیشنل ازم اور قومیں ابھرنا اور نمایاں ہونا شروع ہوئے۔ مگر کولونیل ازم سے آزادی میں نیشنل ازم نے اہم کردار ادا کیا۔ لوگوں نے اس وقت آزاد ہونے کیلئے جدوجہد کی جب ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک قوم تصور کیا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ نیشنل ازم کیا ہے؟

نیشنل ازم سب سے پہلے 1798 کو استعمال ہوا، اور اس کے بعد 1830 کے یورپی انقلاب میں اس لفظ کو دوہرایا گیا۔ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اس کا مطلب لوگوں کی قوم سے وفاداری ہوتی تھی، ریاست سے نہیں، لیکن اب دونوں، مطلب قوم اور ریاست، سے وفاداری کا اظہار ہوا۔ اس کے برعکس ‘ہابس باؤم’ نیشنل ازم کے حوالے سے کہتا ہے کہ اس کی اہم بنیاد زبان ہوتی ہے۔

نیشنل ازم کی تین بنیادی اصول ہیں خودمختاری، اتحاد اور شناخت۔ یہ تین ایسی چیزیں ہیں جو ایک قوم اور آزاد ملک کیلئے لوگوں کو آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے وطن کیلئے جدوجہد کریں اور ضرورت پڑے تو اس کیلئے جان کی بھی قربانی سے گریز نہ کریں۔

نو آبادی کا مطلب وہ قوم جو کسی دوسرے زیادہ طاقتور ملک کے سیاسی قبضے یا شکنجے میں ہو اسے مقبوضہ یا کالونی کہتے ہیں۔

کولونیل ازم اس وقت اوج پر پہنچی جب یورپی اقوام اپنے آپ کو دوسری قوموں، جو چھوٹے اور لاعلمی و ناواقفیت کا شکار تھے، ان سے ترقی یافتہ، مہذب، اور باصلاحیت سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ان چھوٹے قوموں کو نا صرف ان کی طرح مہذب بنائیں گے بلکہ ان کی وسائل و ذرائع کو استعمال کرکے ان کو بلندی کی طرف پہنچائیں گے۔

مگر بجائے کہ ان کے ادنر شعور کو اجاگر کرے اور خوشحالی دے، سامراج نے چھوٹے قوموں پر ظلم کیے، ان کے وسائل کو لوٹ کر ان کے علاقے کو پسماندہ و بوسیدہ کیا اور جو بھی سامراج کے خلاف بات کرتا ان کو اٹھا لیا جاتا اور مار کر ان کو عبرت کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ تب سے آج تک یہ نظام چلتا آرہا ہے۔ آج بھی سامراجی نظام نو آبادی طبقوں میں اپنا راج قائم کر کے بیٹھے ہیں ان کے وسائل کو لوٹ کر ان کو پسماندہ رکھا جارہا ہے اور کوئی بھی ان کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔ مگر یہ سامراجی نظام کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہے۔

سیاست ہمیشہ مذہب کو ایک ٹول یا اوزار کی طرح استعمال کرتا آ رہا ہے۔ ایسٹ انڈین کمپنی کو ہندوستان میں جب اپنا راج قائم کرنا تھا تو سامراج نے لوگوں کے ذہن میں مذہب کا خوف ڈالا تاکہ ان لوگوں کو اپنی مٹھی میں رکھے اور وہ سامراج کے خلاف بغاوت پہ نا اتر آئیں۔

جب بات سیاست اور مذہب کی آتی ہے تو لوگ اپنی شکل و صورت اور شخصیت کو بدلتے رہتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر مبارک علی نے قائدِ اعظم کی مثال دیتے ہوئے کہا ” قائدِ اعظم، جو پاکستان کی تاریخ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدل رہے تھے۔ جیسے جیسے حکمران طبقوں کو مذہب کو بطورِ سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی، اسی طرح سے ماڈرن اور سیکولر قائدِ اعظم مذہبی بنتے رہے۔”

اس کتاب میں ہیرو پرستی ایک اہم موضوع ہے جس کے حوالے سے مصنف نے کہا ہے کہ بہت سے لوگ تاریخ کو جانچ پڑتال کرنے کے بعد عظیم شخصیتوں کو اپنا ہیرو مانتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے سپرد کرتے ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو چھوڑ کر ان کو کافی کرتے ہیں اور کے خلاف بات سننا پسند نہیں کرتے۔

ڈاکٹر مبارک علی اس حوالے سے کہتا ہے کہ ہیرو پرستی معاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر کے انہیں تقلید پر آمادہ کرتی ہے جو معاشرے کیلئے انتہائی مضر ہے۔ جس سے معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔

دوسری بات اگر معاشرہ میں کوئی آفت آجائے تو پورا معاشرہ اس ہیرو کی صلاحیتوں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ ہیرو پرستی معاشرے کو سوچنے سے معذور کرتی ہے۔ جب تمام ذمہ داری کسی ایک فرد کے حوالے کر دی جائے، تو بقیہ لوگوں میں جدوجہد، مزاحمت اور تبدیلی کی خواہشات ختم ہو جاتی ہے۔

اب ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا معاشرہ کو کوئی ہیرو کی ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب مصنف کے ہاں بالکل ‘نا’ ہے۔ کیونکہ کہ ” شخصی حکومت سے زیادہ جمہوری حکومت، نظریہ کے تسلط سے زیادہ آزادی رائے اور فکر کی ضرورت ہے جو معاشرے کو آگے کی جانب لے جائے۔”

کلچر کے اوپر ڈاکٹر مبارک علی بحث کرتے ہوئے کہتا کہ کلچر میں بہت سے پہلو آتے ہیں۔ مثلاً: ادب، مصوری، موسیقی، رقص، قصے و کہانیاں،تہوار اور رسم و رواج وغیرہ۔ یہ سب معاشرے کی شناخت و پہچان کو قائم کرتے ہیں۔ اور ‘ایڑورڈ ٹیلر’ کلچر کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کلچر میں وہ سب کچھ ہے کہ جو معاشرہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر سیکھتا ہے، اور اشتراک کرتا ہے۔

اجتماعیت کا شعور اس وقت پورا ہوا جب معاشرہ میں فیکٹری سسٹمز نافذ ہوا اور سارے مزدور ایک چھت کے نیچے مل کر کام کیا اور تب ایک نئے کلچر کو روشناس کرایا۔ جس میں لوگ اجتماعی طور پر کام کرنے لگے اور ساری مصیبتوں کو ایک ساتھ مل کر اجتماعی طور پر حل کیے۔

آخر میں ڈاکٹر مبارک علی کہتا ہے کہ پاکستان کے اکثر تعلیمی ادارے اور تحقیقی انسٹیٹیوٹس ریاست کے کنٹرول میں ہیں، مورخ اور لکھاری آزادی سے لکھ نہیں سکتے، ان کو آزادی کے ساتھ، درس و تدریس یا تحقیق کا حق دینی چاہیے تاکہ پاکستان میں تاریخ کی جو تدریس کے سلسلہ میں مسائل و کمزوریاں ہیں، ان کی جانب اشارہ کیا جائے اور ان کا صحیح طرح سے تجزیہ بھی کیا جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔