بلوچستان اور بلوچ جہد آزادی
تحریر: واحد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زیارت کی سرشار وادیاں اور اس کے جنگلات، مکران کے میدانوں کی جھلسی ہوئی سیاہ پتھریں، قلات کے سرمئی پہاڑوں کے بہتے ہوئے پانی، لسبیلہ کے کھلے میدانوں میں سرسبز باغات ان سب پر بلوچوں کی آزاد حکمرانی تھی۔ لیکن جبر و تشدد اور دھوکہ دہی سے 27 مارچ 1948 کو بلوچ کو اپنی سر زمین پر پرایا کر کے سارے حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ تب سے آج تک بلوچ اپنے مادر وطن کی محبت میں بلوچ جہد آزادی کی تحریک میں کوشاں ہیں۔ بلوچوں پہ یہ جنگ مسلط نہیں کیا گیا بلکہ بلوچوں نے خود قابض پاکستانی فوج کی بربریت کے خاتمے کے خلاف اور بلوچستان کی آزادی کے لیے جنگ کا آغاز کیا ہے۔
جب قابض پاکستانی فوج نے بلوچوں پر ظلم کی انتہا کر دی تو بلوچوں نے اسی دن جنگ آزادی کا اعلان کیا۔ جب یہ جنگ شروعات کے دور میں تھا تو تب پاکستان نے خان آف قلات کے بھائی عبدالکریم اور اس کے بعد بابو نوروز خان زرکزئی کو قرآن مجید کا واسطہ دے کر بلایا اور بعد میں ان کے پیٹ پر وار کر کے ان کو گرفتار کر دیا گیا۔ جب فرزندان چاکر کے جسم سے لہو زمین پر ٹپکنے لگے تو یہ خون زمین کے مٹی کی رنگت تبدیل کرتا جا رہا تھا اور شہیدوں کی خون کی خوشبو سر زمین کے ہر پیر و بالغ گہرام کے اولادوں کو سونگھنے کو آئی۔ جب بلوچوں کے خون مادر وطن کے سینے میں ٹپکا تو شروع میں اس کی رنگت اتنی ہی گاڑھی تھی جتنی کہ پایاب پانی کی ہو سکتی ہے۔ پھر یہ لہو بلوچستان کے ہر پہاڑوں، میدانوں، جنگلوں اور صحراؤں کے لیے بہائی گئی۔ پھر یہ خون پھیلنے لگا اور بادلوں کی طرح بلوچستان کے ہر کونے میں پھیلتا ہی چلا گیا جو آج بھی جاری ہے۔
72 سالوں سے پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے بلوچ سردار اور وڈیروں کی مدد سے بلوچوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ بلوچوں کے مصائب کا حل بلوچستان کے آزادی میں اور بلوچوں کی اپنی حکومت اور ان کی اپنی ملکی آئین میں ہے۔ نہ کہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مادر وطن کے فرزندوں اور بلوچستان کے وسائل کی سودا بازی سے یا ناراض بلوچوں سے مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اب بلوچوں کا مسئلہ صرف ڈاکٹر اللہ نذر، حیربیار مری، براھمدگ بگٹی اور بشیر زیب کا مسئلہ نہیں رہا کیونکہ وہ مشعل راہ بن کر اپنا فرض نباہ رہے ہیں، بلکہ اب یہ مسئلہ پورے بلوچ اور بلوچستان کا مسئلہ ہے۔ اور نہ ہی اب ڈاکٹر اللہ نذر، اربیار مری، براھمدگ بگٹی اور بشیر زیب کے میدان جنگ چھوڑنے سے یہ جنگ بند ہو گا۔ یہ جنگ مسلسل ہے، خون کے آخری خطرے تک اور جب تک اس دنیا میں ایک بھی غیرت مند بلوچ زندہ ہے بلوچستان کی جنگ آزادی جاری رہے گا۔
ھم اب اپنی منزل سے زیادہ دور نہیں کیونکہ شہید جنرل اسلم بلوچ کا دیا ہوا پلیٹ فارم اور اس کے جانثار ساتھیوں کی قربانیوں نے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے جس کا واضح ثبوت بلوچستان میں میں بڑی فوجی نفری اور بڑھتی ہوئی فوجی چوکیاں. اب پاکستان کو بلوچوں سے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ جو پاک چین اقتصادی منصوبہ ہے جس کا مرکز بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر ہے ناکامی کے دور سے گزر رہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔