بساط سے احتمال تک
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
لکھنے اور پڑھنے کی رومانویت اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ لکھنا اور پڑھنا، اسی لیئے ہمیشہ یہ مشق آزمائی کرنے والے بھی بہت نظر آتے ہیں، لیکن اس مشق کے رومانویت کے خمار سے نکل کر معنویت کے دائرے میں ہر کوئی قدم نہیں رکھ پاتا۔ ہر تحریر بہار علم نہیں اور ہر پڑھنے والا سیراب نہیں ہوتا۔ لکھنے والا بھی یہ جانتا ہو کہ میں کیا لکھ رہا ہوں، قلم اٹھا کر محض قرطاس کو سیاہ کرنا ہی لکھنا نہیں ہے اور کسی تحریر یا کتاب کو اٹھا کر محض ورق گردانی کرکے رکھنا ہی پڑھنا نہیں ہوتا۔ لکھنا تو وہ فن ہے جس کے ذریعے اپنے پیچیدہ سے پیچیدہ خیالات اور جذبات کو کسی اور ذہن تک منتقل کرنا ہوتا ہے، اور پڑھنا ان خیالات و جذبات کو جذب کرکے اپنے ذہن کے تردید و قبولیت کے کسوٹی پر منطق و استدلال کے بنیاد پر رکھنا ہوتا ہے۔ لکھنے کی طرح پڑھنا بھی خود میں ایک آرٹ ہے، جس میں مہارت مشق سے حاصل ہوتی ہے، کسی تحریر کے متن کو سمجھنا، بین السطور معنوں کو پرکھ کر بھانپنا، اخذ کرنا، سمجنا، تحریر میں موجود مخالف خیالات کو اپنے موجود خیالات و نظریات کے میزان پر تولنا، ان خیالات کو فورا مسترد کرنے کے بجائے خود کو چیلنج کرنے دینا پھر دلائل کے توازن کے بنیاد پر تردید و تسلیم کے عمل سے گذرنا یا پھر جستجو کے گرداب میں خود کو پاکر مزید اس موضوع میں خود کو گہرائی سے اترنے دینے، مزید پڑھنا۔
آج جنہوں نے ایک پورے قوم کے مستقبل کی ناخدائی سنبھالی ہے، انہیں کم از کم غور کرنا پڑے گا کہ ہم کچھ پڑھتے ہیں تو کیوں پڑھتے ہیں؟ کیا ہم واقعی سیکھنے، دوسرے کی آرا کو سمجھنے کیلئے پڑھ رہے ہیں یا پھر ہم پہلے سے ہی مسترد کرکے، اخذ کرکے یا پھر نام دیکھ کر محض شخصے کو جواب دینے کیلئے پڑھتے ہیں؟
اسی طرح جب ہم لکھتے ہیں تو کیا لکھتے ہیں؟ کیوں لکھتے ہیں؟ مقصد کیا ہوتا ہے؟ کس کے لیئے لکھتے ہیں؟ شہرت، ضرورت، نفرت، وقت پاسی، کمائی، لالچ، خوشامدی یا پھر فرمائش پر لکھتے ہیں؟
میں پھر دہراتا ہوں، کہ ہم اپنی قوم میں قحط الرجال کا رونا روتے ہیں، لکھنے والے روتے ہیں کہ پڑھنے والا کوئی نہیں اور پڑھنے والوں کا رونا ہے کہ پائے کا کوئی لکھنا والا نہیں ملتا لیکن کیا کبھی قاری سوچتا ہے کہ کیا واقعی وہ پڑھنے کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے؟ اور کیا لکھاری سینہ کوبی سے قبل قلم کے تقاضوں پر بَر آتے ہیں؟ اوسط قاری کے اوسط لکھاری اور اوسط لکھاری کے اوسط قاری کے علت و معلول کا شیطانی چکر کہاں سے ٹوٹے گا؟
بہت سے لوگ تحریر کو تحریر کی خاطر نہیں، اس بندے کی خاطر پڑھتے ہیں جس نے تحریر لکھا ہے اور بہت سے تحریر معیار سے قطع نظر لکھاری کی نام کی وجہ سے نہیں پڑھے جاتے۔ یہیں سے وہ چکر استدلال شروع ہوجاتا ہے کہ تحریر نہیں پڑھے جاتے، لوگ پڑھے جاتے ہے، پھر اس تحریر کو اسی طرح سمجھا جاتا ہے، جیسے جذبات و خیالات لکھاری سے منسوب ہیں۔
میں دیکھ رہا ہوں، بہت سے لوگ لکھتے ہیں لیکن روح کے بغیر، خیال کے بغیر، وجدان کے بغیر، جذبات کے بغیر وہ تقاضہ و ضرورت کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ وقت کیلئے نہیں لکھتے وہ تعداد کیلئے لکھتے ہیں، انکی تحریریں بیج نہیں کہ کَل کو کھل کربڑے پودے بنیں گے، بلکہ وہ لاش ہیں، قبرستان کی صورت بس جگہ گھیرتے ہیں، بس نظر آتے ہیں۔ صرف اور صرف اسلیئے لکھتے ہیں کے وہ پڑھے جائیں، نہ لکھنے والا سمجھتا ہے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں اور نہ پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ لکھنے و پڑھنے کی اسطرح کی فرسودہ روایات و رسم میں نہ کوئی علمی سطح تبدیل ہوتا ہے اور نہ سماج پر کوئی مثبت و علمی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ پائے کے لکھاری ہمارے ہاں پیدا ہونگے بلکہ ہم ایک ایسا انبوہ جمع کریں گے جو الفاظ کے چوغے میں چھپے ٹھیٹ جاہل ہونگے۔
اس روش کو دیکھ، کبھی کبھی ایک ادنیٰ سا لکھاری ہونے کے باوجود کچھ لکھنے کا دل نہیں کرتا ہے، ایک تو ہم خود اس پائے کے لکھاری نہیں اس پر طرہ پڑھنے والے ماشاء اللہ اپنے آپ میں خود شناس سقراط و بقراط ہیں۔ جب کبھی کچھ الفاظ جوڑ توڑ کر تحریر کی شکل میں لانے کی جسارت کرتا ہوں اور بعد ازاں اس تحریر پر آئے آراء و ردعمل کو دیکھتا ہوں تو میں خود سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ میں نے لکھا کیا تھا، نفس مضمون کیا تھا اور سمجھا کیا گیا، نشانہ کہاں پر تھا اور لگا کہاں۔
پتہ نہیں کیوں ہر ایک سمجھتا ہے کہ لکھنے والے کا ٹارگٹ میں ہوں؟ علم نفسیات کی تناظر میں یا تو ہم شیزو فرینیا کے شکار ہوچکے ہیں اور ہر شخص و عمل میں غیر ارادتا و لاشعوری طور پر ایک سازش و دشمن ڈھونڈنے کے عادی ہوچکے ہیں، یا پھر ہماری سیاست اور سیاسی ادبی ساخت و سمجھ ایسے ہی ڈھل چکی ہے کہ ہمیں ہر وقت یہ فکر لاحق ہوتا ہے کہ ہر تیر، تقریر اور تحریر کا مطمع نظر ہمارے وجود کو مٹانے کے درپہ ہے۔ لیکن میں ابتک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس خوف کے پس پردہ کونسی نفسیات کارفرما ہے، کیا یہ نرگسیت ہے کہ ہر تحریر کے آئینے میں اپنا چہرہ ڈھونڈا جائے؟ یا جو کوئی جہاں ہے وہ کسی خوف میں مبتلا ہے کہ مجھ سے کچھ چھینا نا جائے؟ پھر جہاں احساس ملکیت پیدا نہیں ہونا چاہیئے تھا، اب پیدا ہوجانے پر احساس جرم تو نہیں؟
جب ایک تحریر ضبط میں لائی جاتی ہے تو صفائی اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے، میں کس لیے کچھ نہ کچھ لکھتا ہوں؟ اور کیوں لکھتا ہوں یہ میرا درد سر ہے کسی اور کا نہیں۔ میرے آراء صحیح یا غلط ہیں، شاید تحریر معیار کے مطابق ہی نہیں لیکن تحریری شکل میں یہ کچھ خدشات، تجربات، نشاندہی و سوالات وغیرہ کا ملتا جلتا اظہار ہیں، جن سے ہم گذر چکے اور مزید گذرینگے۔
بدبختی یہ رہا ہے کہ ماضی میں ہم جن تجربات، کامیابیوں و ناکامیوں سے گذرے ہیں، جو مشاہدات ہوئے ہیں، جو سوالات ابھرے ہیں، وہ تمام خوف، لالچ یا مصلحت پسندی کی وجہ سے خاموشی کے سینے میں دفن ہوچکے ہیں۔ اسی لیئے آج ہمارے پاس ماضی کے اندازے و قیاسات ضرور موجود ہیں لیکن ان تجربات پر مبنی ٹھوس دلائل و سیکھ موجود نہیں، اسلیئے ہمیشہ ہم نئی تحریکیں اور ہر ایک تحریک کے اندر ہی نئے نئے ادوار شروع کرتے ہیں لیکن ہمارےپاس نیا ہوتا ہے، تسلسل نہیں ہوتا۔ آج ان کوتاہیوں کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں لیکن ہمیں اپنی آنے والے نسلوں کو اپنی طرح سزا بھگتنے نہیں دینا چاہیئے۔
علم و شعور ہی جاری تحریکوں میں نکھار پیدا کرتی ہے، علم و شعور ہی تحریکوں میں مایوسی و الجھن اور خوف کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔ علم و شعور ہئ غلط راہ پر بھٹکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ علم و شعور ہی تذذب و کیفیت کا شکار بننے نہیں دیتا ہے۔ علم و شعور ہی اپنے حقیقی و قومی ذمہ داریوں سے بیگانہ و غافل رہنے کی سوچ کا بیخ کنی کرتا ہے۔ علم و شعور ہی خیرخواہ و بدخواہ کے فرق کو صاف اور واضح کردیتا ہے۔ علم و شعور ہی اپنی کوکھ سے بہادر اور بے غرض انسانوں کو جنم دیتا ہے۔ علم و شعور ہمت و حوصلہ پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ علم و شعور ہی صبر و مستقل مزاجی کا ہنر سکھاتی ہے۔ لیکن علم و شعور خود کیا ہے؟ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ جب خود کو خود علم و شعور کی بارے میں علم و شعور نہ ہو تو پھر ہر ایک اپنی جگہ با علم و با شعور ہوگا اور خود کو کُل سمجھ کر مطمین ہوگا۔
آج ہم ایک ایسے عہد سے گذر رہے ہیں، جہاں ہم اختلاف رائے، تنقید، نقطہ چینی، الزامات، پروپگنڈوں وغیرہ سے ایسے خوف زدہ ہیں کہ جیسے عزرائیل ہمارے سر پر کھڑا ہے۔ صبر و برداشت کا مادہ دم توڑ چکا ہے، سیاسی و علمی اور نظریاتی و فکری بحث مباحثہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ سوائے کھسر پھسر و گلہ و شکوہ کے ان سب کی بنیادی وجہ علم و شعور کی کمی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت بھی ہے۔ جب بھی کوئی جہدکار اپنا کردار نہ نبھائے اور ذمہ داریوں سے غافل و بیگانہ ہو، پھر وہ لامحالہ فضولیات کے ڈھیر پر کھڑا ہوگا۔
جہاں بھی کہیں آپ کو سطحی پن، کھسر پسر، گلہ و شکوہ دوسرے الفاظ میں غیبت و شکایت دن رات ملے، بس آپ یہ جان لیں کہ وہاں علم و شعور اور خاص طور پر قومی عمل مرچکا ہے یا پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔
زندگی میں آپ کوئی بھی برا یا اچھا، چھوٹا یا بڑا عملی کام شروع کریں، آپکا عمل ناگزیر طور پر علت بن کر کسی اور کی زندگی کو متاثر کررہا ہوگا۔ لیکن جب ہم ایک پوری قومی تحریک کی بات کریں تو ہر عمل کا اثر پورے ایک قوم پر پڑتا ہے۔ کئیوں کے مفادات کی برآوری ہورہی ہوتی ہے اور کیوں کو زک پہنچتا ہے تو یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ کچھ بھی اچھا اور برا ردعمل میں نہیں آئے گا۔ کہیں تعریف ہوگی کہیں تنقید۔ جہاں تعریف و ثنا کیلئے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں وہیں تنقید کیلئے بھی کھڑکیاں کھلی رہنی چاہیئیں، جس طرح صرف کسی بھی ایرے غیرے کے حمد و ثنا سے اسے خدا نہیں بنایا جاسکتا، اسی طرح بے جا تنقید و نقطہ چینی سے کسی کو گرایا بھی نہیں جاسکتا۔ وقت کے کسوٹی پر تنقید ہو یا تعریف وہ کھرا کھوٹا ہوکر ٹہر جاتا ہے اور سب واضح ہوجاتا ہے۔ لیکن دنیا کی تمام تحاریک سے ہماری تحریک سب سے نرالی ہے، یہاں عمل سے زیادہ ردعمل پر غور کیا جاتا ہے۔ کامیاب تحریکوں میں توجہ عمل پر ہوتا ہے، اسکے بعد ردعمل پر اپنے عمل کو جانچا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں عمل ہی ردعمل کو دیکھنے خاطر ہورہا ہوتا ہے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ ہم ردعمل کے دنیا میں جی رہے ہیں، اسلیئے ہم نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہوا ہے کہ چاپلوسی و چرب زبانوں کی چاندی ہوتی ہے اور تنقید جائز ہو یا ناجائز بہر صورت ہمیں عزرائیل نظر آتا ہے۔
ہم ہمیشہ ایک بات بار بار دہراتے ہیں کہ کم از کم تحریک سے بلاواسطہ یا بلواسطہ جڑے لوگوں کی سوچ و اپروچ کی سطح ایک عام بلوچ کی سوچ و اپروچ کی سطح سے مختلف اور بلند ہو، مگر کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے قیادت سے کارکنوں کی سوچ و اپروچ کی سطح آگے ہے اور کارکنوں سے عوام کی سوچ و اپروچ کی سطح آگے ہے۔ بہت سے تلخ حقائق ہیں، ہمیں سمجھ کر، مان کر، قبول و اختیار کرکے آگے بڑھنا ہوگا، اگر صرف ہم جذبات، احساسات، خواہشات اور خوش فہیموں کے بھینٹ چڑھ کر تلخ حقائق سے روپوشی کریں گے تو پھر نتیجہ خود زوال اور مایوسی ہوگی۔
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ تحریک میں خوش فہمی کے شکار تھے، خود بھی سبز باغ دیکھ رہے تھے اور دوسروں کو بھی دکھارہے تھے، آج وہ سب سے زیادہ مایوسی اور خوف کے عالم میں کہتے نہیں تھکتے کہ کوئی باغ نہیں بس صحرا ہی صحرا ہے۔ ہم آج بھی کہتے ہیں اور کل بھی کہتے تھے اور آئندہ بھی کہتے رہینگے کہ اس سفر کو طویل صحرا سے ہی گذرنا ہے، یہ سفر پر کٹھن ہوگا، بھوک و پیاس سے ہزاروں سراب نظر آئیں گے، لیکن کسی سراب کا پیچھا نہیں کرنا، کسی نخلستان کو منزل سمجھ کر وہیں پڑاو نہیں ڈالنا، بس نظریں افق پر گاڑھ کر جانب منزل چلتے ہی جانا ہی، کٹتے رہیں گے، مرتے رہیں گے لیکن آخر کار ہم میں سے کوئی نا کوئی منزل سَر کرہی لیگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔