کیا میڈیا آزاد ہے؟
تحریر: سمیر رئیس
دی بلوچستان پوسٹ
اگر میڈیا آزاد ہے تو میڈیا کی آزادی غلامی میں کیوں تبدیل ہو رہی ہے؟ الیکٹرونک میڈیا بلوچستان کے مسائل اجاگر کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا اس کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ سب سے بڑی بات میڈیا کی کارکردگی جہاں سے ابتداء ہے وہاں تک محدود ہے۔ میرا تعلق بلوچستان کے شہر تربت سے ہے میرا آبائی علاقہ بالیچہ ہے جہاں نہ موبائل نیٹ ورک کی سہولت ہے نہ کوئی پی ٹی سی ایل نظام۔ اگر موبائل نیٹ ورک موجود ہے تو وہ بھی ناقابل استعمال ہے۔
افسوس مجھے اس بات پہ ہورہی ہے کہ ایسے ہزاروں مسائل نیوز چینلز کی زینت ہونی چاہیے تھیں لیکن بات پھر وہی کہ میڈیا کو سخت لگام دیا گیا ہے، میڈیا کو ناجائز دھمکیاں دینا بند کریں، نامہ نگاروں کو آزاد کر دیا جائے، آزادی صحافت پہ قدغن نہ لگائیں، قلم کی آزادی بے گناہ قوموں کو زنجیروں سے آزاد کرنے کی مدد ہے، آزاد قلم کا مطلب ہے وہ اہل قلم جس کے لکھنے پر کسی کی پابندی عائد نہ ہو، بلا جھجھک اور غیر جانبداری سے لکھنے والا ہو۔
حیرانگی ہوتا ہے کہ اگر پنجاب میں ایک کتا مر جائے یا کسی کا عید کی قربانی بھاگ جائے تو الیکٹرونک میڈیا آسمان اور زمین ایک کردیں گے، یہاں بلوچستان جیسی بے بس و بے سہارا صوبے کے انسانوں کو جانوروں کے ترازو میں تول کر دیکھا جاتا ہے، اگر واقعی میڈیا اسی طرح نہیں ہے تو ہم سے یہ بھول ہوگئی ہے لیکن یہ ثابت ہوچکی ہے کہ حکمرانوں نے سیاہ پٹی اپنی آنکھوں پرباندھ رکھا ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں لیکن عوام تو روزانہ ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی ہے بلوچستان عوام کو پتہ ہے کہ میڈیا کی کارکردگی اور کوریج نہ ہونے کی برابر ہے۔
بلوچستان کو ہر بنیادی سہولت سے بے دخل کیا جا رہا ہے بلوچستان کو حقوق دینے کے بجائے چھینے جا رہے ہیں، بلوچستان کی سرکاری خالی پوسٹوں کو بھی دوسرے صوبے کے لوگوں کو جعلی ڈومیسائل کے مد میں بھرتی کیا جارہا ہے۔ ہمارا ایک ہی سہارا سوشل میڈیا تھا جس سے ہم اپنے مسائل کو اجاگر کرسکتے تھے لیکن بد قسمتی سے عوام انٹرنیٹ سے بھی محروم ہیں۔ اب ہمیں اتحاد کا دامن پکڑنا چاہیے، منتشر ہونے کی وجہ سے ہر چیز ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے، اب ہم بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کو تخت و تاراج کرنا نہیں چاہتے۔
بلوچی زبان میں نصابی کتابیں بلوچستان کے ہر طلبہ کو پڑھانی چاہئیں کیونکہ قوموں کو اپنی زبان اور ادب کے بارے میں کچھ سیکھنے کو ملے گا، مگر اس دور کے حکومت اپنے زبان و ادب کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ بلوچستان میں دراصل مسائل کیا ہیں؟ پاکستان میں سے اکثریت یہ سمجھتی ہوگی کہ بلوچستان میں بس ٹارکٹ کلنگ ہوتی ہے کیونکہ ہماری میڈیا نے بلوچستان کی اصل تصویر ہمیں نہیں دکھائی۔
بلوچستان کے حوالے سے میڈیا کا کردار بہت اہم سوال ہے؟ اور ہمار ے بلوچ بہن بھائی بھی اس بات کا گلہ کرتے رہے کہ بلوچستان کے حوالے سے میڈیا نے اپنا حق ادا نہیں کیااس لیے لوگ بلو چستان کے متعلق الجھن کا شکار ہیں اور بلوچستان آنے سے ہچکچاتے ہیں، جبکہ بلوچستان کے لوگ بہت پر امن ہیں اور امن قائم کرنا چاہتے ہیں اور بلوچستان میں مثبت کام بھی بہت ہوتے ہیں، ہمارے تہوار اور ہمارے کلچر کو میڈیا پہ اس طرح سے کوریج نہیں دی جاتی جس طرح سے دینی چاہیے۔ اس طرح کے کچھ گلے بلوچستان کے لوگوں کو میڈیا سے ہیں۔ اب ایک نظر بلوچستان کے لوگوں کو درپیش کچھ مسائل پر ڈالتے ہیں۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی کمی ہے۔ وہاں پہ عورتوں کو ابتدائی تعلیم نہیں دی جاتی جو کہ ان کا حق ہے۔ نہ ہی عورتوں کو وہ حقوق دئیے جاتے ہیں جو کہ ان کا حق بنتا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں میں احساس کمتری بہت زیادہ ہے، وہاں کے رہنے والے اپنے صوبہ کو باقی صوبوں سے کمتر سمجھتے ہیں، دشمن ایک نفرت کی صورتحال وہاں کے لوگوں میں پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
بلوچستان کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہاں بزنس تو موجود ہے مگر وہاں لوگوں کو تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اتنی سمجھ نہیں ہے۔ آج بھی کوئٹہ میں موجود عام شہری سرکاری اسکول میں استاد، اسپتال میں ڈاکٹر، گھر میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ وسائل کے انبار کے باجود مسائل کے انبار میں جہاں دیگر عوامل وجہ بن رہے ہیں وہیں قومی میڈیا کی اس خطے سے بے رخی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
حالت یہ ہے کہ آج بھی اکثر قومی ٹی وی چینلز کے نیوز ایڈیٹرز گوادر کو فاصلے کے لحاظ سے کراچی سے دور اور کوئٹہ سے قریب سمجھتے ہیں، میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے جو عوام کی رائے بنانے یا بگاڑنے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔
یقیناً میڈیا کے بدولت ہی معاشرے کے ہر ذی شعور شخص کو معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں سے لڑنے کی طاقت ملی ہے۔ جب ہم اپنے نیشنل میڈیا کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو یقینا دیگر مسائل پر بات نہیں ہوتی، بدقسمتی سے سب کی زیادہ تر توجہ اسلام آباد، پنجاب یا سندھ کی جانب ہوتی ہے یا پھر آخر میں کے پی کے کا رخ کر لیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، کوئی توجہ نہیں دیتا۔
اگر میڈیا آزاد ہے تو میڈیا کی آزادی غلامی میں کیوں تبدیل ہو رہی ہے؟ الیکٹرونک میڈیا بلوچستان کے مسائل اجاگر کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا اس کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ سب سے بڑی بات میڈیا کی کارکردگی جہاں سے ابتداء ہے وہاں تک محدود ہے۔ میرا تعلق بلوچستان کے شہر تربت سے ہے میرا آبائی علاقہ بالیچہ ہے جہاں نہ موبائل نیٹ ورک کی سہولت ہے نہ کوئی پی ٹی سی ایل نظام۔ اگر موبائل نیٹ ورک موجود ہے تو وہ بھی ناقابل استعمال ہے۔
افسوس مجھے اس بات پہ ہورہی ہے کہ ایسے ہزاروں مسائل نیوز چینلز کی زینت ہونی چاہیے تھیں لیکن بات پھر وہی کہ میڈیا کو سخت لگام دیا گیا ہے، میڈیا کو ناجائز دھمکیاں دینا بند کریں، نامہ نگاروں کو آزاد کر دیا جائے، آزادی صحافت پہ قدغن نہ لگائیں، قلم کی آزادی بے گناہ قوموں کو زنجیروں سے آزاد کرنے کی مدد ہے، آزاد قلم کا مطلب ہے وہ اہل قلم جس کے لکھنے پر کسی کی پابندی عائد نہ ہو، بلا جھجھک اور غیر جانبداری سے لکھنے والا ہو۔
حیرانگی ہوتا ہے کہ اگر پنجاب میں ایک کتا مر جائے یا کسی کا عید کی قربانی بھاگ جائے تو الیکٹرونک میڈیا آسمان اور زمین ایک کردیں گے، یہاں بلوچستان جیسی بے بس و بے سہارا صوبے کے انسانوں کو جانوروں کے ترازو میں تول کر دیکھا جاتا ہے، اگر واقعی میڈیا اسی طرح نہیں ہے تو ہم سے یہ بھول ہوگئی ہے لیکن یہ ثابت ہوچکی ہے کہ حکمرانوں نے سیاہ پٹی اپنی آنکھوں پرباندھ رکھا ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں لیکن عوام تو روزانہ ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی ہے بلوچستان عوام کو پتہ ہے کہ میڈیا کی کارکردگی اور کوریج نہ ہونے کی برابر ہے۔
بلوچستان کو ہر بنیادی سہولت سے بے دخل کیا جا رہا ہے بلوچستان کو حقوق دینے کے بجائے چھینے جا رہے ہیں، بلوچستان کی سرکاری خالی پوسٹوں کو بھی دوسرے صوبے کے لوگوں کو جعلی ڈومیسائل کے مد میں بھرتی کیا جارہا ہے۔ ہمارا ایک ہی سہارا سوشل میڈیا تھا جس سے ہم اپنے مسائل کو اجاگر کرسکتے تھے لیکن بد قسمتی سے عوام انٹرنیٹ سے بھی محروم ہیں۔ اب ہمیں اتحاد کا دامن پکڑنا چاہیے، منتشر ہونے کی وجہ سے ہر چیز ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے، اب ہم بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کو تخت و تاراج کرنا نہیں چاہتے۔
بلوچی زبان میں نصابی کتابیں بلوچستان کے ہر طلبہ کو پڑھانی چاہئیں کیونکہ قوموں کو اپنی زبان اور ادب کے بارے میں کچھ سیکھنے کو ملے گا، مگر اس دور کے حکومت اپنے زبان و ادب کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ بلوچستان میں دراصل مسائل کیا ہیں؟ پاکستان میں سے اکثریت یہ سمجھتی ہوگی کہ بلوچستان میں بس ٹارکٹ کلنگ ہوتی ہے کیونکہ ہماری میڈیا نے بلوچستان کی اصل تصویر ہمیں نہیں دکھائی۔
بلوچستان کے حوالے سے میڈیا کا کردار بہت اہم سوال ہے؟ اور ہمار ے بلوچ بہن بھائی بھی اس بات کا گلہ کرتے رہے کہ بلوچستان کے حوالے سے میڈیا نے اپنا حق ادا نہیں کیااس لیے لوگ بلو چستان کے متعلق الجھن کا شکار ہیں اور بلوچستان آنے سے ہچکچاتے ہیں، جبکہ بلوچستان کے لوگ بہت پر امن ہیں اور امن قائم کرنا چاہتے ہیں اور بلوچستان میں مثبت کام بھی بہت ہوتے ہیں، ہمارے تہوار اور ہمارے کلچر کو میڈیا پہ اس طرح سے کوریج نہیں دی جاتی جس طرح سے دینی چاہیے۔ اس طرح کے کچھ گلے بلوچستان کے لوگوں کو میڈیا سے ہیں۔ اب ایک نظر بلوچستان کے لوگوں کو درپیش کچھ مسائل پر ڈالتے ہیں۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی کمی ہے۔ وہاں پہ عورتوں کو ابتدائی تعلیم نہیں دی جاتی جو کہ ان کا حق ہے۔ نہ ہی عورتوں کو وہ حقوق دئیے جاتے ہیں جو کہ ان کا حق بنتا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں میں احساس کمتری بہت زیادہ ہے، وہاں کے رہنے والے اپنے صوبہ کو باقی صوبوں سے کمتر سمجھتے ہیں، دشمن ایک نفرت کی صورتحال وہاں کے لوگوں میں پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
بلوچستان کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہاں بزنس تو موجود ہے مگر وہاں لوگوں کو تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اتنی سمجھ نہیں ہے۔ آج بھی کوئٹہ میں موجود عام شہری سرکاری اسکول میں استاد، اسپتال میں ڈاکٹر، گھر میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ وسائل کے انبار کے باجود مسائل کے انبار میں جہاں دیگر عوامل وجہ بن رہے ہیں وہیں قومی میڈیا کی اس خطے سے بے رخی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
حالت یہ ہے کہ آج بھی اکثر قومی ٹی وی چینلز کے نیوز ایڈیٹرز گوادر کو فاصلے کے لحاظ سے کراچی سے دور اور کوئٹہ سے قریب سمجھتے ہیں، میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے جو عوام کی رائے بنانے یا بگاڑنے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔
یقیناً میڈیا کے بدولت ہی معاشرے کے ہر ذی شعور شخص کو معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں سے لڑنے کی طاقت ملی ہے۔ جب ہم اپنے نیشنل میڈیا کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو یقینا دیگر مسائل پر بات نہیں ہوتی، بدقسمتی سے سب کی زیادہ تر توجہ اسلام آباد، پنجاب یا سندھ کی جانب ہوتی ہے یا پھر آخر میں کے پی کے کا رخ کر لیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، کوئی توجہ نہیں دیتا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔