کیا بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے ذمہ داروں کو واقعی سزا مل گئی؟ – زلمی پاسون

340

کیا بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے ذمہ داروں کو واقعی سزا مل گئی؟

تحریر: زلمی پاسون

دی بلوچستان پوسٹ

12 ستمبر کو ڈان اخبار میں بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے حوالے سے چھپنے والی رپورٹ میں اگرچہ رونگھٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات ہیں لیکن یہ رپورٹ نامکمل اور آدھے سچ سے بھی کم ہے کیونکہ اس رپورٹ میں بھی دیگر رپورٹس اور تحقیقات کی طرح جنسی ہراسگی کے تمام تر جرائم کا بوجھ صرف ایک فردِ واحد پر ڈال دیا گیا ہے۔ اس عمل میں شریک تمام افراد نے نہ صرف خود کو بری الذمہ کروا لیا ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کو چھپانے کے لیے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہیں، جس میں FIA اور بلوچستان ہائی کورٹ کا مجرمانہ کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان تمام تر اداروں نے اپنے روایتی حربوں کے ذریعے جنسی ہراسگی کے ان واقعات کو دبانے کی کوششیں کی ہیں۔ خفیہ کیمروں کے ذریعے وڈیوز بنا کر بلیک میل اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے جرم میں دو اہلکاروں کو برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ باقی سارے حقائق سے رو گردانی کرتے ہوئے اس ایشو کو تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ رپورٹ نامکمل ہے لیکن یہ یونیورسٹی کی طالبات کی جنسی ہراسانی کے حوالے سے دل دہلا دینے والی رپورٹ ہے۔ رپورٹ سے ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے طالبات یونیورسٹی میں صرف ان درندوں اور نفس پرستوں کی ہوس کو پورا کرنے کیلئے آتی ہیں۔ یہ درندے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بے شمار ہیں۔ کسی بھی لڑکی کو اکیلا پا کر یہ وحشی درندے اسے شکار سمجھ کر اس پر فوراً جھپٹ پڑتے ہیں۔ کھلے عام وہ یہ سب صرف اس لیے کر پاتے ہیں کیونکہ انہیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں اور انہیں یہ یقین ہے کہ انکا احتساب نہیں ہو سکتا۔

واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں پچھلے سال اکتوبر میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ایک شرمناک سکینڈل سامنے آیا جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے لے کر کئی پروفیسر اور لیکچرار، سیکورٹی چیف،سیکورٹی کے نام پر بلیک میلر پوری ٹیم اور ہاسٹلوں کا عملہ سب شامل تھے۔ آغاز میں جب یونیورسٹی کی طالبات نے انتظامیہ کے اہلکاروں کے خلاف کمپئین کی تو انتظامیہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ سب سے پہلے تو اس معاملے کو دبانے کی بھر پور کوشش کی گئی لیکن جب یہ معاملہ کھل کر سامنے آیا تو انتظامیہ اور وائس چانسلر سب نے مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح اس سکینڈل کو چھپایا جائے اور طلبہ میں موجود غصے اور نفرت کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ بشمول وائس چانسلر سب نے طلبہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے نام نہاد تفتیشی کمیٹیاں بنانے کے اعلانات شروع کر دیے اور طلبہ کو یہ باور کرانے کی حتی الامکان کوشش کی گئی کہ یہی عدالتی کاروائی، یہی کمیشنز اور تفتیشی کمیٹیاں مثاثرہ طالبات کو انصاف فراہم کریں گی۔

جنسی ہراسگی اس وقت پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں معمول بن چکی ہے۔ مملک خداداد میں آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور موٹروے پرآدھی رات ایک خاتون کے ساتھ ریپ کا واقعہ رونما ہوا۔ اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد جہاں پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑی وہیں سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا انتہائی غلیظ بیان سامنے آیا جس میں وہ اس واقعہ کا قصوروار بذات خود اس خاتون کو قرار دے رہا ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سیاہ کاری اور نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کا قتل ایک قانونی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ جبکہ مملکتِ خداداد میں خواجہ سراؤں کے ساتھ روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے جس میں انہیں بغیر کسی جرم کے سرِعام مار دیا جاتا ہے اور کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی۔

جامعہ بلوچستان کے 88ویں سینڈیکٹ اجلاس میں جامعہ بلوچستان میں جنسی ہراسگی اسکینڈل سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا۔ جس میں صرف دو افراد کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا اور جامعہ بلوچستان اسکینڈل کے مرکزی کردار سابق وی سی کے خلاف گورنر بلوچستان سے جوڈیشل کارروائی کی سفارش کی گئی۔ یاد رہے کہ سابق وی سی بلوچستان یونیورسٹی کے خلاف آج تک نہ کوئی کاروائی ہوئی ہے اور نہ ہی ہوگی جبکہ بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے واقعات کا ملبہ ایک فرد پر ڈالنا حقیقت سے روگردانی ہے کیونکہ یونیورسٹی میں طالبات کی جنسی ہراسگی میں یونیورسٹی کے تمام ملازمین بشمولِ طلبہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ بلیک میلنگ مافیاز جن کو پدرشاہانہ معاشرے میں پیسے والے طاقت ور افراد اور یہاں تک کہ حکومتی حکام کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے، لڑکیوں کو کبھی تصویروں کے ذریعے اور کبھی ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کر کے حکومتی وزیروں اور مشیروں کے پاس بھیجتے ہیں اور بے دردی سے ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ایسا ہی رویہ بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ اپنایا گیا۔

ہاسٹلز میں قیام پذیر طالبات کیساتھ بھی بڑے پیمانے پر جنسی ہراسگی کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ کوئٹہ میں موجود ریاستی مقتدر اداروں کے آفیشلز تک بھی مختلف اداروں کی طالبات کو بلیک میلنگ وغیرہ کے ذریعے سپلائی کرنے کی اطلاعات موجود ہیں۔ اساتذہ بلوچستان یونیورسٹی سمیت صوبے کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی طالبات کو نمبرز اور پاس کرانے کے جھانسے میں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ طالبات اپنے گھروں میں نام نہاد عزت اور غیرت کی خاطر کچھ نہیں بول پاتیں۔ پھر واضح گواہیوں اور شواہد نہ ہونے یا نہ دکھانے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ جامعہ میں UoBians کے نام سے انتظامیہ نے مقتدر قوتوں کی پشت پناہی سے طلبہ کا ایک بلیک میلنگ گینگ بنایا ہوا ہے جس کی بنیاد جنسی ہراسگی ہے۔ یعنی کہ طلبہ اور طالبات کو ایک اس پلیٹ فارم پر اکھٹا کرکے انہیں مختلف مراعات دی جاتی ہیں یا ان کو بلیک میل کیا جاتاہے تاکہ ان کے ذریعے یونیورسٹی میں سرگرم لڑکیوں اور لڑکوں کو نشانہ بنا یا کر یونیورسٹی میں طلبہ کیلئے سیاست کا راستہ روکا جا سکے۔ اس حوالے سے مذکورہ بالا گینگ کے اراکین نئے طلباء و طالبات کو ملک کے دیگر صوبوں میں سٹڈی ٹوورز اور سکالرشپس کی لالچ دیتے تھے تاکہ اپنی تعداد بڑھا سکیں۔ اس حوالے سے طلبہ تنظیموں کے بعض سینئر عہدیدار بھی اس جھانسے میں آکر ان کے لیے کام کرتے تھے جبکہ جن لڑکیوں نے FIA یا یونیورسٹی انتظامیہ کو شکایتیں کی ہیں ان میں اکثریت UoBians سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی ہے۔ اب اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پورے عمل میں اس گینگ کا کردار کیسا تھا۔

یونیورسٹی میں فیکلٹی سٹاف، ملازمین، انتظامیہ اور طلبہ کی اکثریت جنسی ہراسگی کے جرم میں شریک ہے لیکن دانستہ طور پر ایک ایسی رپورٹ بنا ئی گئی ہے جس میں پورے سکینڈل کا ملبہ دو ملازمین کے سر پر ڈال دیا گیا ہے جوکہ حقائق کے سراسر منافی ہے۔ FIA کے ایک اہلکار کے مطابق 200 سے زیادہ شکایتیں اور 5 ہزار سے زائدہ متنازعہ وڈیوز موصول ہوئی ہیں مگر یہاں پر اس ادارے کا کردار سب کے سامنے ہے کہ اس اسکینڈل میں نہ صرف دباؤ میں آکر ان تمام تر ملزمان کو چھپایا گیابلکہ اپنی دی گئی رپورٹ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ معاملہ صرف چند لوگوں کا ہے جس میں خاص کر سرویلینس آفیسر کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ مذکورہ سرویلینس آفیسر کے حوالے سے ڈان کی 12 ستمبر والی رپورٹ میں عجیب و غریب انکشافات موجود ہیں کہ اسے کہاں سے کہاں تک لاکر کھڑا کیا اور ایک غیر تکنیکی فرد کو ایسی ذمہ داری دی گئی جسے اس حوالے سے کوئی علم نہیں تھا۔ اس مذکورہ شخص کو اس طرح کے اختیارات تفویض کرنے کے ذمہ دار بلاواسطہ جامعہ انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اور طلبہ تنظیموں کا کردار
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ نام نہاد تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ کیلئے انتظامیہ نے بہت مختصر وقت مانگا تھا لیکن اس رپورٹ کو عدالت میں پیش ہوئے ایک سال ہو گیااور سکینڈل کے حوالے سے فیصلہ شعوری طور پر ایک ایسے وقت اور حالات میں سنایا گیا جب کورونا وباء کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہے اور طلبہ یونیورسٹی میں موجود نہیں ہیں لہٰذا اس موقع کو مناسب جان کر یہ شرمناک رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ اس سکینڈل میں ملوث تمام بڑے بڑے مجرمان کو بری کرتے ہوئے دو ملازمین کو برطرف کرکے معاملے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ طلبہ نے اس وقت سکینڈل کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا لیکن اس تمام عرصے میں طلبہ کی قیادت کے نام پر موجود روایتی طلبہ تنظیموں کا انتہائی غلیظ کردار اور ان کی سیاست کی محدودیت بھی تمام طلبہ کے سامنے عیاں ہو گئی ہے۔ ان میں سے کچھ نے اس معاملے کو بلوچ و پشتون مسئلہ بناتے ہوئے طلبہ کی اس تحریک کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ بعض تنظیمیں انتظامیہ کے اس مشترکہ جرم کو ایک فرد (وائس چانسلر) تک محدود کرتے ہوئے اس پورے سسٹم کو بچانے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس سے ان کی انتظامیہ کیساتھ کسی نہ کسی شکل میں وابستگی عیاں ہو تی رہی جبکہ کچھ لبرل این جی اوز اور فیمینسٹ عناصر اس مسئلے کو صنفی مسئلہ بنا کر طلبہ کو جنس کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ان دونوں طریقوں سے نہ تو مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی ملزمان کو سزا ملی بلکہ ایک سنجیدہ پروگرام کی عدم موجودگی میں 200 سے زائد زیرِ تفتیش ملزمان کو بری کردیا گیا۔
یونیورسٹی کا سابقہ وی سی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے خلاف اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی مسلسل کوششیں کرتا رہا ہے تاکہ اپنے آقاؤں کو یہ دکھا سکے کہ وہ ان کے احکامات کی کیسے تعمیل کررہا ہے۔ مگروی سی کی طلبہ دشمن پالیسی کے خلاف طلبہ تنظیمیں واضح موقف کے ساتھ نہیں لڑ سکیں کیونکہ یہ تنظیمیں طلبہ کے اندر اپنی حمایت کھوچکی ہیں۔ اس وجہ سے ایک خلاء بن گیااور اس خلاء کو UoBians جیسے انتظامیہ کے آشیرباد سے بننے والے گینگ نے پورا کیا۔ حالانکہ اس گینگ پر طلبہ کی طرف سے یہ الزامات کھل کر لگ رہے تھے کہ یہ گینگ طالبات کو جسمانی تعلقات کے لیے سپلائی کرنے کا کام کررہا ہے لیکن طلبہ تنظیموں کے خصی پن سے یہ سب کچھ ممکن ہوا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کی ایک مظبوط نمائندہ قوت اور منظم پلیٹ فارم (طلبہ یونین) کی عدم موجودگی میں اس جرم میں ملوث افراد کو اصل سزا تفتیشی کمیٹیاں، حکومتی ادارے، پولیس یا عدالت وغیرہ نہیں دے سکتے اور اگر انہیں عہدوں سے ہٹا بھی دیا جائے (اور واقعی ہٹانے کے علاوہ سخت سزا بھی دینی چاہیے) تو بھی یہ سلسلہ اس نظام میں چلتا رہے گا۔ لیکن اس وقت تمام احتجاجوں اور ریلیوں کے اندر ”وی سی ہٹاو“ جیسے سطحی مطالبے کے علاوہ کوئی خاص سیاسی حل اور پروگرام سامنے نہیں لایا گیا۔

حل کیا ہے؟
ان مجرموں کو سزا دینے اور ایسے مسائل کا مستقل طور پر راستہ روکنے کا اصل کام انتظامیہ کی جانب سے بنائی گئی تفتیشی کمیٹیوں کی بجائے طلبہ کی جانب سے بنائی گئی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں کر سکتی ہیں۔ طلبہ کو ہراسگی کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تعلیمی مسائل کے حل اور طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو اس لڑائی میں شامل کرنا ہوگا۔ ایک بار جب پاکستان میں موجود تمام چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی جانب سے ایسی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں جن کی تمام تر فیصلہ سازی طلبہ کے منتخب نمائندے جمہوری انداز میں کریں، تشکیل دے دی گئیں، تو پھر کسی پروفیسر، سیکورٹی اہلکار یا انتظامیہ و ریاستی دلال طلبہ تنظیموں کے غنڈوں کی جرات نہیں ہوگی کہ ہراسگی کرنے کا سوچ بھی سکیں۔ یہ بزدل عوام دشمن حکمران اور انکے دلال ہمیں اس لیے بظاہر بہت طاقتور نظر آتے ہیں کیونکہ ہم لوگ منظم نہیں ہیں اور ہماری سیاسی شناخت موجود نہیں ہے۔ جس دن ہم منظم ہو گئے اور ہماری سیاسی شناخت موجود ہوئی، تو منظم طلبہ کے جم غفیر کو دیکھ کر ان بزدل حکمرانوں اور انکے کرائے کے ٹٹوؤں کی شلواریں گیلی ہو جائیں گی، ہراسگی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

اس کیلئے ضروری ہے کہ طلبہ کی نمائندہ قوت بنانے کی جدوجہد کو تیز کیا جائے اور پورے ملک کے طلبہ کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد کرتے ہوئے ان کی سیاسی و نظریاتی تربیت بھی کی جائے تاکہ اپنے تعلیمی حقوق کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے تعلیمی نظام میں موجود طلبہ دشمن اور سماج دشمن اقدامات اور پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کی جا سکے۔

خواتین کو درپیش ہراسگی سمیت دیگر تمام تر مسائل پدر سری سماج کی وجہ سے ہیں اور اس پدر سری سماج کی بنیادیں طبقاتی سماج میں موجود ہیں۔ خواتین کو درپیش ان تمام تر مسائل کے مستقل حل کے ساتھ ساتھ سماج میں موجود دیگر مسائل جیسے غربت، لاعلاجی، جہالت، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، ناانصافی وغیرہ کا مستقل حل بھی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں اور طلبہ یونین کی بحالی تو محض اس لڑائی کا آغاز ہے، اسکا انجام ہمیں مل کر سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں کرنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔